بات چیت : عالیہ کاشف عظیمی
معروف آسٹریلوی لکھاری ڈیوڈ جارج مالوف کا کہنا ہے کہ’’اداکار دوسروں کی نقّالی نہیں کرتے، بلکہ خود میں موجود دوسرے فرد کا رُوپ دھار لیتے ہیں۔‘‘ لیکن ایسی اداکاری کرنا، جس پر حقیقت کا گمان ہو، ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ البتہ ایسے چند ایک باصلاحیت نوجوان اداکاروں میں ایک نام وہاج علی کا بھی ہیں، جنہوں نے ملٹی میڈیا میں ماسٹرز کے بعد ایک نجی چینل جوائن کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف عہدوں پر ترقّی پاتے چلے گئے۔
دورانِ ملازمت ہی شوقیہ طور پرڈراما’’عشق عبادت‘‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائےاور پھر آن کیمرا بھی ایک کے بعد ایک کام یابی سمیٹی۔ ان دِنوں دو شاہ کار ڈراموں ’’فتور‘‘ اور’’دِل نااُمید تو نہیں‘‘میں شان دار اداکاری کررہے ہیں،جب کہ ان کے مشہور ڈراموں میں ’’میرے دِل، میرے مسافر‘‘، ’’احساس‘‘، ’’میرا درد نہ جانے کوئی‘‘،’’ہری ہری چوڑیاں‘‘، ’’دِل نواز‘‘، ’’ماہ تمام‘‘، ’’حیوان‘‘، ’’بھرم‘‘، ’’عہدِ وفا‘‘،’’بکھرے موتی‘‘ اور ’’گھسی پٹی محبّت‘‘ شامل ہیں۔
گزشتہ دِنوں ہم نے اپنے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے وہاج علی سے کچھ ہلکی پھلکی سی بات چیت کی، جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: میرے والد، اصغر علی اور والدہ دونوں ہی سرکاری ملازمت کرتے تھے، اب والد کا سایا سَر پر نہیں رہا۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والدہ کو صحت و تن درستی کے ساتھ عُمرِخضر عطا فرمائے۔ میری جائے پیدایش لاہور ہے اور اِسی شہر سے پہلی جماعت سے لے کر ملٹی میڈیا میں ماسٹرز تک کے تمام تعلیمی مدارج طے کیے۔ چوں کہ والدسرکاری آفیسر تھے تو ان کامزاج بھی کچھ سخت تھا، اس لیےتعلیم و تربیت کے معاملے میں کسی قسم کی رعایت نہیں برتی گئی۔
س: والدین کے اکلوتے ہیں، تو کیا ہر فرمایش پوری کروائی؟
ج: اکلوتا ضرور ہوں، مگر والدین نے ہمیشہ صرف جائز فرمائشیں ہی پوری کیں۔
س: بچپن کیسا گزرا؟
ج: میرا بچپن ملتان اور بہاول پور میں کھیلتے کودتے گزر گیا۔اصل میںملتان میں والدصاحب کی پوسٹنگ تھی اور بہاول پور میں ننھیال تھا۔ چھٹیوں میں ہم بہاول پور چلےجاتے تھے۔ نانو کا بہت لاڈلا تھا تو جی بَھر کر شرارتیں کرتا،مگر امّی سے اکثر مار بھی پڑ جاتی تھی۔پھر 1998ء میں ہماری فیملی لاہور منتقل ہوگئی۔
س: کیرئیر کی ابتدا سے متعلق مختصراً بتائیں؟
ج: ماسٹرز کے بعد 2009ء میں ایک چینل سے انٹرن شپ کی اور وہیں سے بطور ریسرچ منیجر کیرئیرکا آغاز ہوا۔ بعد ازاں، اسسٹنٹ پروڈیوسر کے عہدے تک پہنچا اور ترقّی کے منازل طے کرتا چلا گیا۔ مجھے اداکاری کے لیے آفرز آتی رہتی تھیں، مگر کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔حالاں کہ مَیں اسکول، کالج میں تھیٹرز وغیرہ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا تھا۔
بہرحال،2015ء میں ڈراما ’’عشق عبادت‘‘کے لیے آڈیشن دیا اور جب وہ نشر ہوا، تو اُسی برس دوسرے ڈرامے’’میرا درد نہ جانے کوئی‘‘کی آفر آگئی۔یوں2018ء تک ملازمت کے ساتھ اداکاری بھی کرتا رہا، لیکن اُس کے بعد ملازمت چھوڑ کر اداکاری ہی کو کُل وقتی پروفیشن بنالیا۔
س: آئی ایس پی آر کے پراجیکٹ، ڈراما’’عہدِوفا‘‘ کا حصّہ کیسے بنے؟
ج: میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ مَیں بھی اس پراجیکٹ کا حصّہ بنوں گا۔ ہوا کچھ یوں کہ مجھے آئی ایس پی آر سے کال آئی کہ میجر جنرل، آصف غفورآپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔تب میں کراچی ہی میں تھا، جب میٹنگ کے لیے پہنچا تو وہاں میرے علاوہ کئی اداکارموجود تھے۔ آصف صاحب سے ہماری بہت خوش گوار ملاقات ہوئی اور پھر پتا چلا کہ مجھے اس ڈرامے کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔
ڈرامے کی پوری ٹیم کے ساتھ اچھی کیمسٹری رہی۔ ہم نے صرف سیٹ ہی پر نہیں، سیٹ سے ہٹ کر بھی بہت شرارتیں کیں۔خاص طور پر لارنس کالج میں شوٹنگ کا تجربہ بہترین تھا۔ ویسے یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں کہ مَیں نے ایک ایسے ادارے کےساتھ کام کیا، جو مُلک کی سلامتی کے لیے کام کررہا ہے۔
س: اپنے آن ائیر اور آنے والےپراجیکٹس سے متعلق بھی کچھ شیئر کریں؟
ج: آج کل تو ناظرین مجھے ’’فتور‘‘ اور ’’دِل نااُمید تو نہیں‘‘ میں عام کرداروں سے ذرا ہٹ کر کام کرتا دیکھ رہے ہوں گے اور میری یہی کوشش ہے کہ ایسے کردار ادا کروں جو روٹین سے کچھ مختلف ہوں۔ اصل میں شوبز انڈسٹری ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں روز ہی کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور جو سیکھا جارہا ہے، اُس کا اظہار بھی ضروری ہے۔ تو میرے پرستار آنے والے دِنوں میں مجھے مختلف نوعیت کے کرداروں ہی میں دیکھیں گے۔
س: اپنے پہلے شوٹ کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟
ج: کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اداکاری کرنا ذرا مشکل تھا، مگر مَیں نے پہلے ہی راؤنڈ میں اپنا شوٹ مکمل کروالیا۔عموماً شوٹنگ کے دوران تب ہی ری ٹیک کرواتا ہوں،جب اپنی پرفارمینس سے مطمئن نہ ہوں۔
س: فلموں میں جلوہ گر ہونے کا ارادہ ہے؟
ج: جی ہاں، ابھی اسماء نبیل کی فلم’’فلائی ‘‘ سائن کی ہے، جس میں ہاجرہ یامین میرے ساتھ مرکزی کردار ادا کریں گی ۔ یہ فلم بریسٹ کینسر کے موضوع پر ہے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مَیں بڑی اسکرین پر آؤں یا چھوٹی پر، میرے نزدیک کام زیادہ اہم ہے۔البتہ، نیٹ فِلکس، ایمازون وغیرہ کے لیے کام کرنے کی خواہش ضرور ہے۔
س: اپنے کسی ڈرامے کا کوئی ڈائیلاگ یاد ہے، جو خود بھی بہت اچھا لگا ہو؟
ج: مجھے ’’عہدِ وفا‘‘ اور’’گھسی پٹی محبّت‘‘کے کئی ڈائیلاگز بہت پسند ہیں۔
س: زندگی سے کیا سیکھا؟
ج: زندگی سے صبر، انتظار کرنا اور حوصلہ رکھنا سیکھا کہ جب بھی جلد بازی کی، ہمیشہ نقصان ہی اُٹھایا۔ اب تک کا یہی تجربہ ہے کہ زندگی میں جس قدر ٹھہراؤ ہوگا، زندگی اُسی قدر مطمیئن اور پُرسُکون گزرے گی۔
س: زندگی میں جو چاہا، پالیا یا کوئی خواہش باقی ہے؟
ج: میری نظر میں خواہشات انسان کو زندہ رکھتی ہیں کہ کبھی کسی مَرے ہوئے شخص نے خواہش نہیں کی۔ہاں، ایسی خواہشات نہ ہوں، جن کی وجہ سے زندگی عذاب بن جائے۔
س: لَو میرج کی یا ارینجڈ؟
ج: سو فی صد لَو میرج ہے، مگر اس میں اہلِ خانہ کی بھی رضا مندی شامل تھی۔
س: سُنا ہے شادی سے پہلے اہلیہ کی گلیوں کے چکر لگایا کرتے تھے؟
ج: جی ایسا ہی ہے۔ میرے خیال میں سب ہی مَن پسند منگیتر کی گلیوں کے چکر لگاتے ہیں۔ سو، مَیں نے بھی لگائے کہ کسی بہانے ملاقات ہوجائے۔
س: اپنی اہلیہ اور بیٹی سے متعلق کچھ بتائیں؟
ج: اہلیہ کا نام ثنا فاروق ہے۔ انہوں نے جینڈر اسٹڈی میں ایم فِل کیا ہے اور ہاؤس وائف ہیں۔ ہم دونوں کا اسٹار قوس ہے۔ کئی باتوں پر ہمارے اختلافات ہوتے رہتے ہیں، مگر ہمارا دوستی اور محبّت کا رشتہ بہت مضبوط ہے۔ہماری چار برس کی بیٹی امیرہ ہے۔ وہ میرے سارے ڈرامے دیکھتی ہے۔حتیٰ کہ میرےڈائیلاگز تک بولتی ہےاورجب موڈ میں ہو تو بڑے سُر میں ڈراموں کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریکس، انگریزی گانے بھی گاتی ہے اور گھر بَھر کی لاڈلی اور چہیتی ہے۔
س: اگر اہلیہ شوبز سے وابستگی کی خواہش ظاہر کریں تو ردِ عمل کیا ہوگا؟
ج: مَیں ہرگز منع نہیں کروں گا، مگر میری جو روٹین ہے، اُسے دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ ثنا کبھی ڈراموں میں کام کرے گی۔
س: کسی سیاسی شخصیت سےمتاثر ہیں،اگر ہاں، تو کیوں؟
ج: وزیرِ اعظم عمران خان سے متاثر ہوں کہ ان کا ویژن بہت اچھا ہے۔
س: لاک ڈاؤن کا وقت کیسا گزرا؟
ج: عام روٹین میں کئی مہینے فیملی کے ساتھ گزارنا ناممکن سی بات ہے،تواس اعتبار سے لاک ڈاؤن کا وقت بہت اچھا گزرا۔کبھی والدہ کو تنگ کرلیتا تھا، تو کبھی بیوی سے لڑائی جھگڑا کرلیا۔
س: کتب/ شاعری سے شغف ہے؟
ج: بچپن میں شاعری کرتا تھا، مگر اب صرف معروف شعراء کو پڑھتا ہوں۔
س: کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور آئے تو ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟
ج: اگر کوئی جھوٹ بولے تو غصّہ آتا ہے۔ اور ہاں، جب بیگم بات نہ مانے، میرے اور گھر کے کام نہ کرے، تب بھی غصّہ آتا ہے۔ چوں کہ خالصتاً مشرقی شوہر ہوں توردّ ِعمل ظاہر نہیں کرتا۔ بس صبر کے گھونٹ بھر لیتا ہوں۔
س: پیسا خرچ کرتے وقت سوچتے ہیں؟
ج: مَیں نے کہاں پیسے خرچ کرنے ہیں، سارے تو بیگم ہی اُڑا دیتی ہیں۔ اور جب بیگم خریداری کررہی ہوں، تومَیں کبھی پیسوں کی طرف، تو کبھی اُن کی طرف دیکھتا ہوں۔مگر افسوس نہیں ہوتا کہ میرا جو بھی کچھ ہے، میری فیملی کے لیے ہی ہے۔
س: اگر اداکار نہ ہوتے…؟
ج: تو پھر کیمرے کے پیچھے ہی ملازمت کررہا ہوتا۔
س: دِل کی سُنتے ہیں یا دماغ کی؟
ج: دِل ہی کی سُنتا ہوں، تب ہی تو اتنی جلدی شادی کرلی۔
س: گھر والوں کو آپ کی کون سی عادت ناپسند ہے؟
ج: کوئی ایک عادت،(ہنستےہوئے) مجھے تو لگتا ہے کہ مَیں پورا ہی ناپسند ہوں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مجھے گھر والے ایکسچینج بھی نہیں کرواسکتے۔
س: سالِ گزشتہ کے تجربات کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ج: مَیں بھی کورونا وائرس کا شکار ہوگیا تھا۔ یہ شُکر ہے کہ میری فیملی اس سے محفوظ رہی۔ جب مجھے علامات محسوس ہوئیں تو فوراً ٹیسٹ کروایا اور احتیاطاً خود کو سب سے الگ تھلگ کرلیا۔ ٹیسٹ پازیٹیو آیا تو قرنطینہ میں تو تھا ہی، معالج کی ہدایات پر بھی مکمل عمل کیا اور اب الحمدللہ بالکل ٹھیک ہوں۔رہی بات تجربات کی توسالِ گزشتہ ہر شعبے کو متاثر ہوتے دیکھا، بلکہ یوں کہہ لیں کہ زندگی کو مفلوج ہوتے دیکھا۔اس وبا سےسیکھنے والوں نے بہت کچھ سیکھا بھی اور خود کو بدلا بھی۔
س: ڈراموں کا معیار پہلے سےبہتر ہوا ہے یا …؟
ج: جی بالکل ڈراموں کا معیار بہتر ہورہا ہے، مگر اصل مسئلہ اچھے ڈائریکٹرز کی کمی کا ہے۔ کیوں کہ ایک اچھا ڈائریکٹر بُری کہانی کو بھی بہتر طور پر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،لیکن اگر ڈائریکٹر ہی اچھا نہ ہو تو اچھی کہانی بھی اچھا نتیجہ نہیں دے پاتی ۔
س: کیا پاکستانی ٹی وی چینلز پرغیر مُلکی ڈرامے نشر ہونے چاہئیں؟
ج: بالکل نشر ہونے چاہئیں۔مَیں توسو فی صد اس کے حق میں ہوں، کیوں کہ اگر غیر مُلکی ڈرامے نشر نہیں ہوں گے تو ہمیں اپنے ڈراموں کے معیار کاکیسے پتا چلے گا۔ ویسے بھی فن کو سرحدوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیے۔
س: ان دِنوں کون سا گانا ذہن میں بسا ہوا ہے؟
ج: آج کل تو ڈراما’’دِل نا اُمید تو نہیں‘‘ کا او ایس ٹی ہی لبوں پر رہتا ہے۔
س: آپ کا مَن پسند ڈراما کون سا ہے؟
ج: اپنے ڈراموں میں’’دِل نا اُمید تو نہیں‘‘، جب کہ دیگر میں’’دھوپ کنارے‘‘، ’’تنہائیاں ‘‘اور’’ بےحد‘‘ پسند ہیں۔ مجھے زیادہ تر آرٹ ڈرامے اور فلمیں ہی بھاتی ہیں۔
س: ستارہ کون سا ہے اور کیا سال گرہ مناتے ہیں؟
ج: تاریخِ پیدایش یکم دسمبر1988ء ہے، مگر سال گرہ منانے کا قطعاً شوق نہیں۔
س: کہتے ہیں کہ برج قوس سے تعلق رکھنے والے مَرد دِل پھینک ہوتے ہیں، تو کیا ایسا ہی ہے؟
ج: مگر میرے ساتھ تو مسئلہ یہ ہے کہ(ہنستے ہوئے) جہاں دِل پھینکتا ہوں،جھٹ بیگم اُٹھا لیتی ہیں۔
س: موجودہ حکومت کی کارکردگی اگر ایک لفظ میں بیان کرنے کو کہا جائے تو…؟
ج: صرف’’جذباتی پن‘‘ ہی کہوں گا۔
س: سینئر اداکاروں میں سے کس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے؟
ج: مجھے نعمان اعجاز، وسیم عباس اور تنویر جمال سمیت تقریباً سارے ہی سینئرز کے ساتھ کام کرنے کی خواہش ہے، کیوں کہ یہ سب فن کاراداکاری کی وہ باریکیاں سمجھاتے ہیں، جو کوئی انسٹی ٹیوشن بھی نہیں سکھا سکتا ہے۔تو ہمارے لیے تو یہی بہترین انسٹی ٹیوشنز ہیں،جن کی قدر کرنی چاہیے۔
س: سوشل میڈیا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ج: دِل لگی کا بہانہ کہہ لیں اور اگر مثبت طور پر دیکھا جائے ،تو یہ ایک ایسی طاقت ہے، جس کے ذریعے بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے۔
س: اسپورٹس سے دِل چسپی ہے؟ کون سے کھیل، کھلاڑی اچھے لگتے ہیں؟
ج: کرکٹ اور ٹیبل ٹینس پسند ہیں، جو مَیں خود بھی کھیلتا ہوں ۔اکثر یوٹیوب پر کرکٹ کے پُرانے میچز دیکھتا رہتا ہوں۔جب کہ کھلاڑیوں میں عمران خان، وسیم اکرم اور شاہد آفریدی پسند ہیں۔
س: اپنے والدین کے لیے کیا کہنا چاہیں گے؟
ج: 2017 ء میں والد کا انتقال ہوگیا تھا، اب وہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کرتے رہتے ہیں۔ والدہ کے لیے یہی کہوں گا کہ وہ اپنا خیال رکھیں کہ اگر وہ اپنا خیال نہیں رکھیں گی تو پھر میرا خیال کون رکھے گا۔
س: کیا اس عالم گیر وبا سے کچھ سیکھا؟
ج: ماسک لگانا اور بار بار ہاتھ دھونا سیکھا ہے۔
س: آپ کی کوئی انفرادیت،اپنی شخصیت کو کس طرح بیان کریں گے؟
ج: مَیں جو سوچتا ہوں، وہ حاصل کرلیتا ہوں۔
س: ایک دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟
ج: اللہ تعالیٰ میری بیٹی کے نصیب اچھے کرے۔