دُنیا بَھر میں ہرسال 2اپریل کو ’’ورلڈ آٹزم اوئیرنیس ڈے‘‘ منایا جاتا ہے،جس کا بنیادی مقصد عوام النّاس کے سامنے ان مسائل، مشکلات کو لانا ہے،جن سے آٹسٹک افراد اور ان کے متعلقین ہر روزنبردآزما ہوتے ہیں،کیوں کہ دُنیا بَھر میں آٹزم کی شرح جس تیزی سے بڑھ رہی ہے، ضروری ہے کہ ہر سطح تک اس سے متعلق درست معلومات عام کی جائیں، تاکہ آٹسٹک افراد کے لیے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔
دراصل1943ء میں ڈاکٹر لیو کینر نے پہلی بار ذہنی مسائل سے دوچار بچّوں کے ایک گروپ پرتحقیق کے بعد متاثرہ بچّوں کی ذہنی حالت کو ’’آٹزم‘‘ کا نام دیا۔بعد ازاں، آٹزم سوسائٹی آف امریکا نے1997ء میں اسے نیورولوجیکل ڈس آرڈر قرار دیا ، جس کے مطابق آٹزم کا تعلق انسان کی نفسیات سے نہیں، بلکہ انسانی جسم، بالخصوص دماغ سے ہے، جو ذہنی نشوونما کی مختلف اقسام کی کمیوں اور مسائل کا شکار ہوجاتا ہے۔
جس طرح عام بچّے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، بالکل اِسی طرح ذہنی صلاحیتوں کے مختلف درجات رکھنے والے آٹسٹک بچّے بھی کارکردگی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہ بچّے عمومی طور پر جن مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اُن میں بات چیت (کمیونی کیشن) میں مشکل، سماجی رابطوں کا (سوشل انٹریکشن) فقدان اور مختلف عمومی رویّے(بی ہیویئرز) شامل ہیں۔ آٹزم کے ان مخصوص مسائل کے اثرات آٹسٹک بچّوں، اُن کے گھر، اسکول اور اردگرد کے ماحول کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
عام افراد کی طرح بات چیت نہ کرنے، سماجی اصول و ضوابط نہ سمجھنے اور رابطوں کے فقدان کے نتیجے میں آٹسٹک بچّوں کے احساسات اُن کے رویّوں سےظاہر ہوتے ہیں، جو عام طور پر عجیب و غریب اور کبھی کبھار تکلیف دہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ بچّے اپنے احساسات، بے بسی اور ناپسندیدگی کا اظہار عموماًغصّہ دکھا کر یا پھر رو کر کرتے ہیں، جسے طبّی اصطلاح میںTemper Tantrum کہا جاتا ہے۔ بعض بچّے غصّے اور اشتعال کو اظہار کا مستقل ذریعہ بنالیتے ہیں، جب کہ بعض ارد گرد کے ماحول سے کٹ کر اپنے خول میں بند ہو جاتے ہیں اوریہ دونوں ہی صُورتیں والدین کے لیے سخت تکلیف دہ ہیں۔
واضح رہے، یہ بچّے والدین کی ہر وقت کی تنقید اور نکتہ چینی سے منفی توجّہ حاصل کرنے کے لیے ہر وہ کام بار بار دہراتے ہیں، جن سے والدین کو غصّہ آئے۔ انہیں اس بات کی بھی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ ان کی حرکات و سکنات پر مار یا ڈانٹ بھی پڑ سکتی ہے، بلکہ یہ اس صورتِ حال سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اصل میں اپنے قریبی افراد کو اشتعال دلانا اور اُنہیں منفی ردِعمل کے لیے اُکسانا ان بچّوں کے نزدیک سب سے بڑی کام یابی ہوتی ہے۔
گرچہ آٹسٹک بچّوں کی تربیت عام بچّوں سے مختلف اور صبرآزما ہے، لیکن مثبت اور مختصر گفتگو، پُر سُکون لہجے اور محبّت آمیز رویّے کے ذریعے اور بچّوں کی منفی حرکات و سکنات کو غیر ضروری توجّہ نہ دے کر تربیت کا مرحلہ خاصی حد تک سہل ہوجاتا ہے۔ متاثرہ بچّے کا نامناسب اور مشکل رویّہ بہتر بنانے کے لیے اُسے مثبت رویّے کی مشق کروانا اور اُس کی چھوٹی چھوٹی کوششیں سراہنا طبّی اصطلاح میں Behaviour Modificationکہلاتا ہے، جو ان بچّوں کی تربیت کا ایک اہم ترین حصّہ گردانا جاتا ہے۔
آٹسٹک بچّوں میں آٹزم کی علامات ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، لیکن عمومی طور پر عوامل ایک ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بات چیت یا احساسات کی ترجمانی نہ کر پانے یا پھر اپنی پسند، ناپسند نہ بتانے سے ان بچّوں میںبے چینی اور گھبراہٹ بڑھ جاتی ہے، لیکن گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار آٹزم سے کم متاثرہ بچّوں میں مسلز ٹینشن کی صُورت ہوتا ہے۔ جیسے بار بار ہاتھ مروڑنا، ہلتے رہنا، ایک جگہ ٹک کر نہ بیٹھنا اور بلاوجہ ہنستے رہنا۔
درمیانی نوعیت کے متاثر بچّے تیز آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ہائپر ایکٹو ہوجاتے ہیں۔ یا نامناسب انداز سے ہنسنا یا رونا شروع کردیتے ہیں۔ اور جن بچّوں میں اس ڈس آرڈر کی نوعیت شدید ہو، وہ اکثر اپنے خول میں بند ہو جاتے ہیں، چیختے چلاتے، بے چینی سے اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں اور پُرتشدد رویّہ اختیار کرلیتے ہیں۔گرچہ ہر آٹسٹک بچّہ اپنی خصوصیات کی بناء پر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے، لیکن بعض ذہنی کم زوریاں ایسی ہیں، جن سے ہر بچّہ کم و بیش لازماً متاثر ہوتا ہے۔
خاص طور پررابطے کا فقدان، گفتگو نہ کرنا اور بات نہ سمجھنا یہ وہ بنیادی عوامل ہیں، جو ان بچّوں کے رویّوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اپنی ضروریات اور احساسات بیان کرنے کے لیے بھی یہ نامناسب رویّہ اختیار کرتے ہیں، جس کی درستی بہت صبر آزما مرحلہ ہے۔ باہمی رابطےسے محروم بعض بچّے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار غصّے کے ذریعے کرتے ہیں۔ مثلاً قریبی افراد سے لڑائی جھگڑا یا پھر اپنا سَر دیوار یا زمین پر ماردینا، زمین پر بیٹھ جانا،کسی جگہ بیٹھ کر اُٹھنے سے انکارکردینا، تیز، غصیلی آوازیں نکالنا، ضد اور ہٹ دھرمی وغیرہ۔ ڈاکٹر ٹیمپل گرانڈن اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ’’میرے پاس ہاتھ ہلانا اور آوازیں نکالنا ہی اپنے احساسات کے اظہار کا واحدذریعہ تھا۔‘‘ذیل میں آٹسٹک بچّوں سے متعلقہ چند عمومی مسائل بیان کیے جارہے ہیں،تاکہ والدین اپنے روّیوں میں تبدیلی لاکر اور آموزش کے مختلف طریقے اختیار کر کے متاثرہ بچّوں کی زندگی کسی حد تک سہل بناسکیں ۔ مثلاً:
حسّیات کے مسائل (Sensory Issues):ان بچّوں کے رویّوں پر اثرانداز ہونے والی ایک اور اہم وجہ حسّیات کے نظام کی پیچیدگیاں ہیں،جن میں دیکھنے، سُننے، چکھنے، سونگھنے، چُھونے، توازن قائم رکھنے، چیزیں درست طریقے سے پکڑنے اور ان کا درست استعمال، بھوک،پیاس اور پیٹ بَھر جانے کا احساس، حوائجِ ضروریہ کا بروقت احساس نہ ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ آٹسٹک بچّوں میں ان حسّیات کا کم یا زیادہ ہونا یا بیک وقت دونوں حالتوں کا ایک ساتھ پایا جانا بھی ممکن ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر اکثر بچّوں کے لیے روزمرّہ امو رانجام دینا مشکل امر بن جاتا ہے۔
سماعت سے متعلقہ مسائل (Auditory Processing Problems): آوازیں سُننا اور سمجھنا ایک قدرتی نظام ہے، جس میں دماغ کی کارکردگی اہم کردار ادا کرتی ہے۔بعض آٹسٹک بچّے مکمل سماعت رکھتے ہوئے بھی سُننے، سمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ بعض آوازیں ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں، جنہیں سُن کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار غصّے یاتشدد کے ذریعے یا پھر رو کر کرتے ہیں۔ بعض بچّے مخصوص آوازیں بار بار اور تیز آواز میں سُننا چاہتے ہیں۔
جیسے ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون کی آواز وغیرہ، لیکن بار بار اور تیز آواز سُننے کی وجہ سے اکثر اوقات خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے حواس باختہ ہو جاتے ہیں،جس کے نتیجے میں خود آوازیں نکالنا شروع کردیتے ہیں، ارد گرد کی چیزیں زور زور سے پٹختے، تالیاں بجاتے یا پھر دروازے زور زور سے بند کرتے ہیں۔ ان بچّوں کاکوئی بات یا ہدایت مکمل طور پر نہ سمجھنا یا دیر سے سمجھنا سماعت کم زور ہونے کی واضح علامت ہے، جس کا تعلق براہِ راست دماغ سے ہے۔
سماجی اور جذباتی مسائل/خصوصیات (Social Emotional Characteristics): ان مسائل میں بے چینی، گھبراہٹ، عدم برداشت، بعض چیزوں کا بے جاخوف، غصّہ، حواس باختگی اور سماجی رابطے سے گریز شامل ہیں، اور ان ہی مسائل کے باعث یہ بچّے رابطہ رکھنے اور دوست بنانے سے گھبراتے ہیں۔ عدم برداشت عام طور پر غصّے، تشدّد اور اشتعال کی وجہ بنتا ہے، جو جسمانی بھی ہو سکتا ہے اور زبانی بھی۔ ان بچّوں کا یہ طرزِعمل جہاں انہیں سماجی روابط سے روکتا ہے، وہیں عام بچّے اور دیگر افراد بھی ان سے ملنے جُلنے سے کترانے لگتے ہیں۔
بچّوں کاروّیہ (Behavioral Characteristics): ان بچّوں میں ارتکازِ توجّہ کا فقدان، جلد بازی، عدم برداشت، عدم تحمّل، ضد،بے چینی، گھبراہٹ،ہائپر ایکٹی ویٹی(غیر معمولی طور پر فعال ہونا)،کام مرحلہ وار انجام دینے کے بجائے ایک ہی عمل بار بار دہراتے رہنا اور اسی پر اٹک جاناآموزش کا عمل مشکل بناتا ہے، جو والدین کے لیے خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے،لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ دیگر افراد ان بچّوں کی حرکات و سکنات دیکھ کر انہیں مذاق یا تضحیک کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔
آٹزم کےگھر کے ماحول پر اثرات(Impact On Home Environment) : اس ڈس آرڈر کے اثرات پورے گھر کے ماحول اوراہلِ خانہ پر مرتّب ہوتے ہیں۔آٹزم سے کم متاثرہ بچّوں کی تعلیم و تربیت نسبتاً آسان ہوتی ہے اور کئی خاندان یہ عمل بخوبی انجام دے لیتے ہیں، بہ نسبت اُن بچّوں کے، جن میں آٹزم کی نوعیت درمیانی یا شدید ہو۔ایسے بچّوں کے والدین فرسٹریشن، ذہنی دبائو اور تنائو کا سامنا کرتے ہیں اور مایوسی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ان بچّوں کی بھاری ذمّے داری اور مختلف رویوں کی وجہ سے والدین کے لیے سماجی تعلقات قائم رکھنا، نبھانا، تقریبات میں شرکت، تفریحی مقامات پر جانا، خریداری یا کسی کو اپنے گھر مدعو کرنامشکل ہو جاتا ہے۔
چوں کہ عموماً والدین اپنا سارا وقت ان ہی کی دیکھ بھال پر صرف کرتے ہیں، تو اپنا اور شریکِ سفر کا بھی خیال نہیں رکھ پاتے۔ جس کے نتیجے میں اکثر والدین میں غلط فہمیاں اور دوریاں جنم لینے لگتی ہیں۔بیش تر والدین اس غم ہی سے باہر نہیں نکل پاتے کے اُن کے گھر ایک نارمل، ذہین بچّے کے بجائے ایک آٹسٹک بچّے نے جنم لیا ہے۔پھروالدین کو یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ اُن کے بعد اُن کے بچّے کا کیا بنے گا۔زیادہ تر والدین اتائیوں کے جھانسے میں آکر پیسا بھی خرچ کرتے چلے جاتے ہیں، جو معاشی تنگی اور گھریلو مسائل کی وجہ بنتا ہے۔ بعض والدین ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار رکھتے ہیں، ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
نیز، مثبت سوچ اپنا کر اہلِ خانہ کو بھی چیلنجز کا خوش اسلوبی سے سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھتے ہیں۔ آٹسٹک بچّے کی پرورش کے لیے سخت ہمّت اور حوصلہ درکار ہوتا ہے، اسی لیے کہتے ہیں کہ مشکل کاموں کے لیے اللہ پاک اپنے خاص لوگوں کو چُنتا ہے۔ والدین کے لیے روزمرّہ کے معاملات میں ضرورت کے مطابق تبدیلی، مثبت سوچ، ایک دوسرے کا ساتھ، محبّت، برداشت اور بہتر طرزِعمل جیسے عوامل یقیناً اُن کی مشکلات کم کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اسکول کے ماحول پر اثرات (Impact on School Environment): ان بچّوں کی تعلیم و تربیت کے انتہائی مؤثر طریقے موجود ہیں، لیکن جب خاص طریقۂ تعلیم اختیار کرنے کے باوجود بھی بچّے کی ضد ختم یا نامناسب رویّہ درست نہ ہو، تو اسکول کے ماہر اساتذہ بھی نہ صرف ذہنی دبائو، تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں، بلکہ ان کے اعتماد میں بھی کمی آتی ہے۔ پھر ان بچّوں کے چیخنے چلّانے یا رونے کے سبب دیگر بچّے اور کلاس کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔
اساتذہ کے ساتھ والدین کے اچھے روابط اور گھر میں بھی مخصوص طریقۂ کار پر عمل بچّے کے رویّے اور سیکھنے کے عمل میں بہتری کا موجب بنتا ہے۔یاد رکھیے، آٹزم میں پڑھانے اور سکھانے کے طریقۂ کار مثبت ہوتے ہیں، کیوں کہ بچّوں کو ملامت کرنا، ان پر چیخنا چلّانا یا مارنا ان میں مزید بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق آٹزم اس وقت دُنیا بَھر میں سب سے زیادہ تشخیص ہونے والا برین ڈس آرڈر ہے، جس میں مبتلا لڑکوں کی تعداد لڑکیوں کی نسبت 4گنا زائد ہے۔امریکا میں کیے جانے والے ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق ہر54بچّوں میں سے ایک بچّہ، ہر34لڑکوں میں سے ایک لڑکا اور ہر144لڑکیوں میں سے ایک لڑکی آٹزم سے متاثرہے۔
آٹزم سے متاثر ہونے کی وجوہ کیا ہیں؟ اس پرہنوز تحقیق کاسلسلہ جاری ہے۔تاہم، مختلف تحقیقات کے مطابق موروثیت اور ماحول وجہ بنتے ہیں۔ چوں کہ آٹزم کا علاج تاحال دریافت نہیں ہو سکا، اس لیے بروقت تشخیص، والدین کی اپنے آٹسٹک بچّے کے ساتھ خوش اسلوبی سے زندگی گزارنے کیے لیے رہنمائی، ماہراساتذہ کے ذریعے بچّے کی ابتدائی عُمر ہی سے تعلیم و تربیت کا آغاز وہ ممکنہ اقدامات ہیں، جو دُنیا بَھرمیں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
یاد رہے، ابتدائی3سالوں میں ظاہر ہونے والی علامات میں آئی کانٹیکٹ نہ کرنا، قریبی افراد کی طرف مائل نہ ہونا ، اُنہیں دیکھ کر خوشی اور لگائو کا اظہار نہ کرنا، مُسکراہٹ کا نہ ہونا یا بہت دیر سے مُسکرانا سیکھنا اور مُسکراہٹ کا جواب مُسکراہٹ سے نہ دینا، تنہائی میں بھی خوش اور مگن رہنا،گود میں لینے اور لپٹانے پر ناپسندیدگی کا اظہار،کچھ مخصوص جسمانی حرکات کو مستقل جاری رکھنا جیسا کہ ہاتھو ں کو ہلانا اور دائیں بائیں آگے پیچھے ہلتے رہنا، کھلونوں سے کھیلنے کی بجائے ان کے مختلف حصّوں میں غیر معمولی دِل چسپی لینا، جیسا کہ کار کے پہیے، ڈوری یا پُش بٹنز وغیرہ، کھلونوں سے مختلف طریقوں سے کھیلنا اور ایک ہی کھیل کو بار بار دہرانا، کھلونوں کی بجائے مختلف اشیاء کو کھیلنے کے لیے پسند کرنا، جیسا کہ خالی بو تلیں، ریپرز، ڈبّے، ٹشوز، ڈوری،کاغذ وغیرہ، روزمرّہ کے معمولات میں کسی بھی تبدیلی پر سخت ردِعمل کا اظہار،اشارے یا چہرے کے تاثرات سے اپنی خوشی کا اظہار نہ کر سکنا، پسندیدہ چیز کو دیکھ کر غیر معمولی طور پر خوشی کا اظہار، جیسا کہ ہاتھ ہلانا اور اچھلنا کودنا، اردگرد کے ماحول سے بےخبررہنا, جذبات کا (مثلاًخوشی ،غم،حیرانی) اظہار دیر سے کرنا،کسی شے کی سمت انگلی سے اشارہ نہ کرنا یا اشارے کی سمت نہ دیکھنا، ہم عُمر بچّوں میں دِل چسپی نہ لینا، دیر سے بولنا سیکھنا یا بالکل نہیں بولنا، غیر معمولی الفاظ کو بار بار دہرانا، سُنی ہوئی کسی بھی بات یا الفاظ کو مستقل دہراتے رہنا،تالی بجانے، سلام کرنے یا بائے بائے جیسے بچکانہ عمل سکھانے، روتے ہوئے بچے کو بہلانے، کسی جانب توجّہ دلانے یا کچھ دیر کے لیے توجّہ مرکوز رکھنے اور معمولاتِ زندگی سکھانے میں والدین کو سخت دشواری کا سامنا کرنا، ایک ہی مشغلہ بار بار دہرانا، اردگرد کے ماحول سے بےخبراور اپنے آپ میں مگن رہنا وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم، ضروری نہیں کہ یہ تمام علامات سب آٹسٹک بچّوں میں ایک ساتھ پائی جائیں، ان میں سے چند علامات بھی ظاہر ہوں، تو وہ آٹزم کی تشخیص میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ (مضمون نگار، سینٹر فار آٹزم، کراچی میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہی ہیں)