• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپ ہمیشہ روشن خیال، جمہوریت پسند اور انسانی اقدار کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر گزشتہ دنوں یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں نقاب پر پابندی کیلئے ہونے والے ریفرنڈم سے یورپی اقدار کی قلعی کھل گئی۔ اس طرح فرانس، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک اور نیدرلینڈ میں نقاب پر پابندی کے بعد سوئٹزرلینڈ نے بھی اِن یورپی ممالک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نقاب پر پابندی کا ریفرنڈم منعقد کیا جس کے حق میں معمولی اکثریت حاصل ہوئی۔ اس ریفرنڈم میں سوئٹزرلینڈ کے 51 فیصد لوگوں نے برقع پر پابندی کی حمایت جبکہ 49 فیصد عوام نے مخالفت کی۔ حالیہ ریفرنڈم دائیں بازو کی جماعت سوئس پیپلزپارٹی جو ملک میں اوڑھنے کیخلاف پابندی کی حامی ہے، کی مہم کے نتیجے میں ہوا۔ اس مہم میں سوئس پیپلزپارٹی نے جو پوسٹرز استعمال کئے، اُن پر سوئٹزرلینڈ کے قومی پرچم اور برقع پوش خاتون کے ساتھ تحریر تھا کہ ’’سوئٹزرلینڈ میں انتہا پسندی اور اسلامی شدت پسندی بند کرو۔‘‘ واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ میں برقع پر پابندی کے بعد اب کسی خاتون کو عوامی مقامات یا شاپنگ سینٹرز میں نقاب کی اجازت نہیں ہوگی اور خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ یا قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

یورپ کے ملک فرانس میں اس وقت سب سے زیادہ 8.6 ملین مسلمان آباد ہیں۔ فرانس یورپ کا وہ پہلا ملک ہے جس نے 2010ء میں مسلم خواتین بالخصوص اسکول اور کالج کی بچیوں کے نقاب اور برقع پر پابندی عائد کرتے ہوئے اِسے سیکورٹی رسک قرار دیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ بیلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک اور نیدرلینڈ سے ہوتا ہوا سوئٹزرلینڈ تک آپہنچا۔ سوئٹزرلینڈ میں ساڑھے پانچ لاکھ مسلمان مقیم ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق ترکی، بوسنیا اور کوسوو، سے ہے اور شاذ و ناذر ہی کوئی خاتون برقع میں ملبوس نظر آتی ہے، اِس کے باوجود سوئٹزرلینڈ میں برقع پر پابندی ظاہر کرتی ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک اسلاموفوبیا کا شکار ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2009ء میں سوئٹزرلینڈ میںمساجد کے میناروں کی تعمیر پر بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

دنیا کے ہرانسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لباس کا انتخاب کرے جو اُس کے بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔ کسی انسان کے لباس کے انتخاب کو مذہبی یا سیاسی رنگ دینا بالکل مناسب نہیں اور کسی شخص یا حکومت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اُس سے یہ حق چھین سکے۔ مغرب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مسلم خواتین برقع میں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں اور اِسے سیکورٹی رسک سے تعبیر کرنا قطعاً درست نہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں نقاب پر پابندی کے بعد اِس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک میں مقیم مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان نہ صرف دوریاں پیدا ہوں گی بلکہ اس پابندی سے انتہا پسند گروپ فائدہ اٹھائے گا جس سے سوئٹزرلینڈ میں شدت پسندی جنم لے گی۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ مغربی ممالک کی تقلید میں ایشیائی ملک سری لنکا بھی برقع اور اسلامی اسکولوں پر پابندی کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو امتِ مسلمہ اجتماعی طور پر بے حسی اور جمود کا شکار نظر آتی ہے۔ میں ایسے واقعات پر کالم تحریر کرکے اور لوگ اسے پڑھ کر اپنا فرض ادا کردیتے ہیں اور کچھ دنوں بعد ایسے واقعات ہمارے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں مگر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہماری یہ بے حسی اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک میں یکے بعد دیگرے اسلام مخالف قوانین بناکر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ آج اگر مسلمان خواب غفلت سے بیدار نہ ہوئے اور اسلام مخالف اقدامات اور پروپیگنڈا کے خلاف موثر آواز نہ اٹھائی گئی تو وہ دن دور نہیں جب مغربی ممالک میں نماز پڑھنے پر بھی پابندی عائد کرنے کیلئے قانون سازی کی جائے گی۔اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی، جو 57 اسلامی ممالک میں آباد 1.8 ارب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے، کو چاہئے کہ وہ یورپی ممالک میں اسلام مخالف قوانین کے خلاف ہنگامی اجلاس طلب کرکے قرارداد پاس کرے اور یورپی ممالک کو تنبیہ کی جائے کہ وہ اسلام مخالف قوانین بنانے اور نافذ کرنےسے باز رہیں لیکن اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو تمام اسلامی ممالک اپنے ملک میں مغربی خواتین پر اسلامی قوانین پر عملدرآمد کی پابندی عائد کریں تاکہ مغربی خواتین کو مسلمان خواتین کی تکلیف کا احساس ہوسکے اور وہ اپنے ملک میں مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کے خلاف آواز بلند کرسکیں۔

اہل مغرب مسلمان عورتوں کے برقع پہننے اور پہنانے والوں کو انتہا پسند اور اُن کے اس عمل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ فعل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو پھر کسی سے زبردستی برقع اتروانا اور اس سے امتیازی سلوک کرنا بھی انتہا پسندی ہے۔ انتہا پسندی مذہب کے نام پر ہو یا سیکولرازم کے نام پر، انتہا پسندی ہی کہلاتی ہے۔ مغرب نے مادی ترقی کی معراج کو پالیا ہے مگر یہ ترقی اُسے مذہب، انسانیت اور تہذیب سے دور لے گئی ہے اور یورپی ثقافت اخلاقی پستی کی طرف گامزن ہے۔ دوسروں کے مذاہب کو برا کہنا اور اُن کے پیغمبروں کا مذاق اڑانا مغربی ممالک کا وطیرہ بن چکا ہے۔ مذہب سے دوری مغربی ممالک کو بے راہ روی کی طرف لے گئی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ یورپی ساحلوں پر کپڑے پہن کر جانے کی اجازت نہیں اور اِن ساحلوں پر صرف برہنہ خواتین اور مرد ہی جاسکتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں برقع پر پابندی کے حوالے سے حالیہ ریفرنڈم کے بعد یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہوگی کہ جسم ڈھاپنے کا عمل تو قانون شکنی کے زمرے میں آتا ہے مگر جسم برہنہ کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں۔ کیا یہ مغربی ممالک کا کھلا تضاد نہیں؟

تازہ ترین