• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخلاق احمد

میر جاوید رحمان صاحب سے پہلی تفصیلی ملاقات بہت پرلطف تھی ۔آج ، جب انہیں رخصت ہوئے ایک سال ہونے کو آیا ہے ، یہ ملاقات اور ایسی ہی بے شمار چھوٹی چھوٹی باتیں ، یاد کے گھنے جنگل میں جگنوؤں کی طرح جلتی بجھتی ، روشنی دیتی محسوس ہوتی ہیں ۔

یہ چالیس برس اور دو ماہ پرانی بات ہے ۔ اس وقت مجھے اخبار جہاں سے وابستہ ہوئے ایک ڈیڑھ ماہ ہو چکا تھا ۔ جاوید صاحب سے سرسری سلام دعا تو ہو چکی تھی، مگر تفصیلی بات چیت کا ابھی کوئی موقع نہیں آیا تھا۔

ایک دن میں صبح گیارہ بجے کے قریب چھوٹا موٹا کام نمٹا کر ، اخبار جہاں کے خطاط اعلی رشید رستم قلم کے پاس چلا گیا ۔ ان کا کمرہ شعبہ کتابت کے ساتھ ہی تھا ۔ وہ اپنے وقت کے مایہ ناز خوش نویس تھے ، ایک باغ و بہار شخصیت تھے اور اخبار جہاں کے سرورق کی سرخیوں کے علاوہ اہم مضامین کی سرخیاں اس خوبی سے لکھتے تھے کہ پورا صفحہ جگمگا اٹھتا تھا ۔ رشید رستم قلم صاحب کے جاوید صاحب سے وہی تعلقات تھے جو بزرگوں اور برخورداروں کے مابین ہوتے ہیں ۔ جاوید صاحب انہیں "راقم صاحب" کہتے تھے اور رشید رستم قلم صاحب ، جاوید صاحب کو "جاوید میاں" کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔

اس روز میں رشید رستم قلم صاحب کے پاس گیاتو اردو زبان اور نادرست الفاظ کے بارے میں کوئی بات شروع ہو گئی ۔ رشید رستم قلم زبان کی صحت کے معاملے میں بہت علم بھی رکھتے تھے اور حساس بھی تھے ۔ انہوں نے باتوں باتوں میں سامنے رکھےکسی اخبارکی ایک سیاسی سرخی کی طرف اشارہ کیا اور کہا:’’اچھا یہ بتائیے اخلاق میاں ، اس سرخی میں کوئی غلطی ہے ؟‘‘

پہلی نظر میں مجھے کوئی غلطی نظر نہ آئی ۔ کچھ دیر تک سرخی کے ایک ایک لفظ کو دیکھتا رہا ۔ پھر میں نے کہا ۔’’میرا خیال ہے ، ایک غلطی ہے۔‘‘

رشید رستم قلم صاحب نے اپنے مخصوص شائستہ انداز میں کہا: ’’بتائیے بھئی ۔ ہمیں بھی تو پتا چلے ۔‘‘

عین اسی وقت ایک گرج دار آواز سنائی دی ۔ ’’السلام علیکم راقم صاحب‘‘۔ اور میں نے میر جاوید رحمان صاحب کو اندر داخل ہوتے دیکھا ۔ میں نے گھبرا کر انہیں سلام کیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔ وہ سرخی ، وہ غلطی ، وہ ساری گفتگو پل بھر میں میرے لئے جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی ، بس یہ خیال باقی رہ گیا کہ مجھے اس کمرے سے نکل بھاگنا چاہئیے ۔

جاوید صاحب نے دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے ہاتھ ہلا کر مجھ سے کہا :’’بیٹھئے ، بیٹھئے۔‘‘میں بیٹھ گیا ۔ جاوید صاحب رشید رستم قلم سے مخاطب ہوئے ۔’’ کیا ہو رہا ہے راقم صاحب؟‘‘ ان کی آواز میں بے فکری تھی ۔رشید رستم قلم صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں لکڑی کے قلم سے آرٹ پیپر کے مسطر پر سرخی کی نوک پلک درست کرتے کرتے کہا ۔ ’’امتحان لے رہا تھا جاوید میاں ، اس بچے کا۔‘‘

میری گھبراہٹ میں مزید اضافہ ہو گیا جب رشید رستم قلم صاحب نے انہیں مبینہ امتحان کی تفصیل بتانا شروع کی تو جاوید صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آنے لگی ۔

’’ہاں بھئی اخلاق میاں‘‘۔رشید رستم قلم نے اپنے مسطر پر نظریں جمائے جمائے کہا ۔’’کیا کہہ رہے تھے آپ؟‘‘

مجھے محسوس ہوا کہ جاوید صاحب کی نظریں مجھ پر مرکوز ہو چکی ہیں ۔ ایک سادہ سی بات گویا اچانک کوئی امتحان بن گئی تھی،اور امتحان بھی ایسا کہ کسی مصیبت کی طرح اچانک نازل ہو گیا تھا ۔ جیسےکسی آدمی کو ہزار کوشش کے باوجود فرار ہونے کا راستا نہ ملے تو وہ بچ نکلنے کی خاطر کسی بھی جانب چھلانگ لگا دیتا ہے ، بالکل اسی طرح میں نے دھیمی آواز میں ، مگر بے دھڑک وہی کہہ ڈالا جو میری محدود عقل کے حساب سے درست تھا۔ میں نے کہا:’’میرے خیال میں اس سرخی میں جو لفظ استعمال ہوا ہے،’’ ناراضگی‘‘ ۔ یہ غلط ہے ۔‘‘

ذرا دیر خاموشی چھائی رہی ۔رشید رستم قلم صاحب نے مسطر سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا، مسکرائے اور جاوید صاحب سے مخاطب ہوئے ۔‘‘ بچہ ذہین ہے جاوید میاں ۔ صحیح لفظ ناراضی ہوتا ہے ۔ اس بات پر تو مجھے چائے پلانی پڑے گی ۔‘‘

جاوید صاحب بولے ۔’’راقم صاحب ، آپ کا امتحان پاس کیا ہے ۔ چائے کے ساتھ کوئی کیک پیس بھی منگوائیں نا۔‘‘

وہ ملاقات شاید بیس پچیس منٹ تک جاری رہی جس کے دوران کینٹین سے چائے وغیرہ بھی آئی، باتیں بھی چلتی رہیں جن کی کوئی تفصیل اب مجھے یاد نہیں۔ ہاں ، یہ ضرور یاد ہے کہ میں حیرت سے یہ ضرور سوچتا رہا کہ بالعموم سنجیدہ دکھائی دینے والے جاوید صاحب کا کوئی اندرونی نرم گوشہ ایسا بھی ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔

آج انہیں یاد کرنے بیٹھا ہوں تو احساس ہوا ہے کہ اس واقعے کے بعد اگلے برسوں میں کیسے دھیرے دھیرے ان کی شخصیت پرت در پرت کھلتی گئی ۔ وہ لوگوں پر رفتہ رفتہ کھلتے تھے ۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا جیسے وہ جان بوجھ کر سخت گیری کے خول میں محض اس لئے رہنا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں سے فاصلہ برقرار رکھ سکیں ۔ لیکن جب ان کو کسی پر اعتماد ہو جاتا تھا تو وہ اپنی شخصیت کے گرد بڑی محنت سے تعمیر کی جانے والی رکاوٹیں پل بھر میں خود ہی توڑ دیا کرتے تھے ۔

شاید نوے کے عشرے کی بات ہے، ایک بار اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کا پینل انٹرویو طے پایا ۔کراچی سے پوری ٹیم اسلام آباد پہنچی جس کی قیادت میر جاوید رحمان صاحب کر رہے تھے ۔میاں نواز شریف نے مختلف سوالات کے جواب بہت اعتماد سے دئیے۔یہ بھی کہا کہ ہم ترقی کے سفر میں عام آدمی کو شریک کرنا چاہتے ہیں ، ہم گاؤں گاؤں بجلی پہنچانے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔انٹرویو تقریبا ختم ہو چکا تھا جب میر جاوید رحمان صاحب نے ، جو نواز شریف کے ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے ، عوامی ترقی کے منصوبوں پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا اور سادگی سے پوچھا :’’بس آخری سوال یہ ہے کہ آپ کب تک پاکستان کے ہر گاؤں میں بجلی پہنچا دیں گے؟‘‘

نواز شریف مسکرا کر بولے:’’ آپ دیکھیں گے ، انشاءاللہ بہت جلد۔‘‘

میر جاوید صاحب نے ان کا ہاتھ تھامے تھامے پھر پوچھا ۔’’پھر بھی ، کتنے دنوں میں یہ کام ہو جائے گا؟ خاصا بڑا کام ہے ۔‘‘

مجھے یہ پرلطف منظر آج تک یاد ہے ۔ جاوید صاحب وزیراعظم کا ہاتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ وزیراعظم سیاسی اورگول مول جواب دئیے جا رہے ہیں ۔ اور ہم لوگ ہکا بکا یہ پورا منظر دیکھے جا رہے ہیں ، حیران ہیں کہ کوئی وزیراعظم سے بھی اس بے تکلفی اور جرات سے ایسا سادہ نظر آنے والا سوال کر سکتا ہے جس کا جواب دینا آسان نہ ہو ۔

ایسا ہی ایک واقعہ کچھ عرصے بعد کراچی میں پیش آیا تھا ۔ ممتاز بھٹو آج سے چوبیس برس قبل ، تین ماہ کے لئے سندھ کے عبوری وزیر اعلی بنے تھے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کی تو سب اخبارات کے ایڈیٹرز اور چیف رپورٹرز کو بلایا ۔ جاوید صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں پریس کانفرنس میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو بولے ۔’’بس ، پھر میرے ساتھ ہی چلئے گا ۔‘‘

پریس کانفرنس سیکرٹیریٹ کے ہال میں تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں بوتل بند منرل واٹر کی فروخت شروع ہوئی تھی ۔ شرکاء کی نشستوں کے سامنے نوٹ پیڈ ، بال پین ، پانی کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ۔ پریس کانفرنس میں ممتاز بھٹو نے روایتی انقلابی قسم کی باتیںکیں کہ ہم غریب آدمی کی زندگی میں آسانی اور تبدیلی لائیں گے ۔ کچھ اہم اقدامات کا بھی اعلان کیا ۔ ان کی گفتگو ختم ہوئی تو سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کئی صحافی اٹھ اٹھ کر سوال کرتے جا رہے تھے ۔ ممتاز بھٹو جواب دیتے جا رہے تھے ۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے جاوید صاحب کو سوال کرنے کے لئے اٹھتے دیکھا ۔ ذرا دیر کے لئے خاموشی چھا گئی ۔

جاوید صاحب نے ایک دو جملوں میں قائم مقام وزیر اعلٰی کے عزائم کی تعریف کی۔پھرکہا:’’چیف منسٹر صاحب ، غریب آدمی کی زندگی میں تبدیلی اسی وقت آ سکتی ہے جب ہم غریب آدمی کی سطح پر جا کر سوچیں ۔ جب تک ہمارے سامنے ایسی چیزیں رکھی رہیں گی‘‘۔انہوں نے اپنے سامنے رکھی منرل واٹر کی بوتل اٹھائی اور ہوا میں لہرائی۔’’ہم غریب آدمی کی زندگی میں کیا تبدیلی لا سکیں گے؟‘‘

ایک قائم مقام وزیر اعلٰی، حکومت کے ایک ائیر کنڈیشنڈ ہال میں ہونے والی روایتی پریس کانفرنس کے دوران ایسے سوال کا کیا جواب دے سکتا تھا ۔ ممتاز بھٹو خاصے بے مزہ ہوئے ،لیکن انہوں نے کچھ اس قسم کی بات کی کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ، ہمیں اس کلچر کو ختم کرنا ہو گا تاکہ غریب لوگوں کے اصل مسائل سے آگہی حاصل ہو سکے ۔

جاوید صاحب ایسے ہی آدمی تھے ۔ بے ساختہ ، بلنٹ ، کھرے ۔ یہ ان کی خوبی بھی تھی ، اور خامی بھی ۔ انہوں نے ایک بھرپور ، متحرک زندگی گزاری ۔ اخبار جہاں کے فلور پر شام گئے کیسی کیسی محبت بھری محفلیں سجائیں ۔ کبھی ناراض ہوئے ، کبھی خوش رہے ، کبھی دوسروں کی دل جوئی کی ، کبھی ساتھیوں کے ہمراہ قہقہے لگائے ۔ آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی قابل رشک رہی ۔ شاید اسی لئے وہ ہم سب کی یادوں میں بدستور زندہ ہیں ۔

تازہ ترین