محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: محمد رفیق مانگٹ
ملک میں ناخواندگی کی شرح %40 فیصد سے زیادہ ہے اور ملک کے دُور دراز دیہی علاقوں میں بجلی کی سپلائی اکثر و بیشتر معطل رہتی ہے اس لیے حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز ناقابلِ عمل ہے،بھارتی الیکشن کمیشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتماد نہیں رہا اور اس میں رزلٹ کی تبدیلی کے بارے میں بھی شکایات منظرِعام پر آ چکی ہے اور اس نظام میں بیلٹ کا آڈٹ نہیں ہوتا لہٰذا اس میں دھاندلی کا عنصر عام پایا جاتا ہے اور جہاں ناخواندگی کی شرح زیادہ ہو وہاں پر انجینئرڈ الیکشن کرانا آسان رہتا ہے اور جغرافیائی طور پر پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے موزوں نہیں ہے،جعلی ووٹنگ کی روک تھام کے لیے بائیو میٹرک کا سسٹم بھی لازمی ہونا چاہیے تاکہ ووٹر کی شناخت ہو سکے۔ انڈیا میں الیکشن کا عمل ایک ماہ تک محیط ہے۔
کنور محمد دلشاد
پاکستان کے ہر گوٹھ، دیہات میں تو بجلی بھی نہیں، انٹرنیٹ کا کیا سوال۔ اسی وجہ سے 2018 میں آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ ایسے ٹیکنالوجی گیپ دھاندلی کی گنجائش چھوڑتے ہیں،تمام شناختی کارڈوں کے پیچھے مکمل بائیو میٹرکس نہیں ہیں،پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے،ایک اچھے اور شفاف نظام میں سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوسکتی،وقت آگیا ہے کہ اہل سیاست پہل کریں اور اہل علم مل بیٹھیں اور قوم کوایک اچھا انتخابی نظام دیں،سیاسی اور انتخابی اصلاحات کے لیے پہلی سیڑھی سیاسی قوتوں کا بامقصد ڈائیلاگ ہے کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
ظفر اللہ خان
امریکا اور ہندوستان سمیت متعدد ممالک میں ووٹ ڈالنے کے اس انداز کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ سمیت متعدد ممالک نے اس کو اپنانے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ ترک کردی، 2017 میں، ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ تقریباًتین لاکھ ای وی ایم کی ضرورت ہوگی جس کے لئے اسٹوریج، سروس اور تربیت کی لاگت کو چھوڑ کر تقریبا 45 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔یہ لاگت اب نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے،سینیٹ انتخابات کے لئے خفیہ بیلٹ سسٹم کو ختم کرنے سے انتخاب کی آزادی پر شدید اثر پڑے گا جو اس نظام نے اب تک ارکان اسمبلی کو فراہم کیا
احمد بلال محبوب
پاکستان میں انتخابات ہمیشہ تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ ان کے نتائج کو کبھی انجینئرڈ کہا گیا تو کبھی چمک کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ کسی نے جھرلو قرار دیا تو کسی نے آر او (ریٹرننگ آفیسر) الیکشن سے تعبیر کیا۔ گزشتہ انتخابات کو بھی آر ٹی ایس کا نام دے کر تنقید کی جاتی ہے۔ مشکوک نتائج کے باعث سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ انتخابی اصلاحات کی بات کی۔ خود مختار الیکشن کمیشن کی بھی کوشش کی جاتی رہی، لیکن ایک مؤثر، غیر جانب دار اور بااعتماد الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں نہ آسکا۔ انتخابی نتائج کبھی شکوک و شہبات سے مبرا قرار نہیں دیے گئے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات قوم کے لیے ایک خواب کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان دنوں پھر انتخابی نظام میں اصلاحات کی باتیں کی جارہی ہیں۔
الیکٹرانک سسٹم اپنانے کی بھی تجاویز دی جارہی ہیں۔ ان خبروں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگ فورم نے ماہرین کے ساتھ ایک ٹیلی فونک گفتگو کا اہتمام کیا، جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کیسے ممکن ہیں؟ انتخابی نظام میں کیا تبدیلیاں کی جانی چاہئیں، ایک متفقہ الیکشن کمیشن کا قیام کیسے ممکن ہے اور کیا الیکٹرانک ووٹنگ شفاف انتخابات کا حل ہے۔ جنگ فورم میں کنور محمد دلشاد (سابق سیکریٹری، الیکشن کمیشن آف پاکستان)، ظفراللہ خان( کنوینر پارلیمنٹری ریسرچ گروپ) اور احمد بلال محبوب (صدر، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے اظہار خیال کیا۔ جنگ فورم کی رپورٹ پیشِ خدمت ہے۔
کنور محمد دلشاد
سابق سیکریٹری، الیکشن کمیشن آف پاکستان
آئندہ انتخابات میں رائے دہندگان کے لیے بیلٹ پیپر کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال کی حکومت کی تجویز پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی خصوصی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بغیر شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے جب کہ اپوزیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے ملک میں ناخواندگی کی شرح 40%فیصد سے زیادہ ہے اور ملک کے دُور دراز دیہی علاقوں میں بجلی کی سپلائی اکثر و بیشتر معطل رہتی ہے اس لیے حکومت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز ناقابلِ عمل ہے۔
اپوزیشن کے تحفظات میں وزن نہیں ہے، ملک کی ناخواندگی کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے تعلق نہیں بنتا، یہ آسان ترین طریقہ کار ہے ووٹر نے مطلوبہ انتخابی نشان پر بٹن ہی دبانا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومت کی معاونت سے آگاہی مہم شروع کر سکتی ہے۔ اب میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سربراہ اور ارکان کمیٹی اور حکومت کے ماہرین کی رہنمائی کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں خدشات کا اظہار کر رہا ہوں۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال میں بیلٹ پیپرز کا تصور نہیں ہے اور ووٹر نے جس پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کیا ہے اس کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا، بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں اپوزیشن پارٹیوں نے الزامات لگائے تھے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ایک ایسی چپ خفیہ طور پر لگا دی جاتی ہے جو بٹن دبانے پر مخالف پارٹی جس نے ماہرانہ طریقہ سے چپ لگائی ہوتی ہے اس کے حق میں ووٹ منتقل ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح کے الزامات امریکی صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے الیکشن میں 2017ء میں لگائے گئے تھے اور روسی حکومت پر شدید تنقید کی گئی تھی اور حالیہ امریکی الیکشن میں صدر بائیڈن نے روس کی قیادت پر الزامات لگائے ہیں لہٰذا الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے رزلٹ کی تبدیلی کے بارے میں تحفظات مغربی جمہوری ممالک میں لگائے جا رہے ہیں۔
جب کہ پاکستان میں انتخابی معرکہ میں الزامات 1951ء سے لگائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بھارتی الیکشن کمیشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتماد نہیں رہا اور اس میں رزلٹ کی تبدیلی کے بارے میں بھی شکایات منظرِعام پر آ چکی ہے اور اس نظام میں بیلٹ کا آڈٹ نہیں ہوتا لہٰذا اس میں دھاندلی کا عنصر عام پایا جاتا ہے اور جہاں ناخواندگی کی شرح زیادہ ہو وہاں پر انجینئرڈ الیکشن کرانا آسان رہتا ہے اور جغرافیائی طور پر پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے موزوں نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپریل 2008ء میں اقوامِ متحدہ، یورپی ممالک اور امریکا کے ماہرین سے رپورٹ منگوائی تھی اور ان کے ماہرین کی رپورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ میں یقینا موجود ہوگی، میں نے بطور وفاقی سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان چیف الیکشن کمشنر قاضی محمد فاروق کی ایما پر ان ممالک سے ماہرانہ رائے حاصل کرنے کے لیے یو ایس ایڈ کی ذیلی تنظیم انٹرنیشنل الیکٹرول سسٹم سے استفادہ حاصل کیا تھا ان کی رپورٹ کے مطابق اس وقت بیس ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال ہوتی ہیں ان ممالک میں بھارت بھی شامل ہے۔
بھارت میں 2004ء سے تمام پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں استعمال ہو رہی ہیں۔ الیکشن میں دس لاکھ سے زیادہ مشینیں استعمال کی گئیں، ان میں بیلٹ پیپر استعمال نہیں ہوتے۔ پولنگ آفیسرز ووٹر کو سکرین پر بیلٹ دیتا ہے اور وہ انگلی سے بٹن دبا کر ووٹ دے دیتا ہے جو ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھارت، آسٹریلیا، برطانیہ، بیلجیم، برازیل، اسٹونیا، فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ اور فلپائن میں استعمال ہو رہے ہیں۔
وینزویلا کے الیکشن میں وہاں کے ووٹرز نے دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور ملک میں انتخابات فسادات بھی دیکھنے میں آئے تھے۔ بھارت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی خریداری کے لیے بڑی کامیاب مارکیٹنگ کی ہے۔ اوائل 2007ء اور 2008ء میں اسلام آباد میں مقیم بھارتی ہائی کمشنر نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دورے کیے تھے اور بھارتی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے لیے تجربات پر مبنی کئی بار مظاہرے بھی کیے تھے اور اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا یہی موقف رہا کہ جب تک آئین میں قانون سازی نہیں ہو جاتی اس پروجیکٹ پر کام کرنا بے سود ہے۔
پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ساڑھے تین لاکھ مشینیں خریدنے پر تقریباً 50ارب روپے کے اخراجات آنے کے امکانات ہیں جب کہ انٹرنیٹ الیکٹرانک ووٹنگ تارکین وطن کے ووٹرز پر بھی تقریباً 50ارب روپے کے اخراجات آنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور ووٹرز کی آگاہی اور عملہ کی تربیت کے لیے جو اخراجات آنے ہیں اس کا تخمینہ لگانا باقی ہے کیونکہ الیکشن 2023ء کے لیے ایک لاکھ سے زائد پولنگ سٹیشنوں کا قیام عمل میں آنا ہوگا اور عملہ کی تعداد بھی 15لاکھ سے زائد ہو گی۔
ان تمام اخراجات کے باوجود اگر یہ سسٹم آر ٹی ایس کی طرز پر فلاپ ہو گیا تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس متبادل انتظامات بھی نہیں ہوں گے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ہنگامہ آرائی اور امن و امان کی صورت حال پر کنٹرول کرنے کے بارے میں بھی جائزہ لینا ہوگا۔ پاکستان میں 2023ء کے انتخابات کے موقع پر ووٹرز کی تعداد 5 1کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے بھی قانون میں ترمیم کرنا پڑے گی کیونکہ ایک دن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد ناممکن ہی ہوگا۔ جعلی ووٹنگ کی روک تھام کے لیے بائیو میٹرک کا سسٹم بھی لازمی ہونا چاہیے تاکہ ووٹر کی شناخت ہو سکے۔
انڈیا میں الیکشن کا عمل ایک ماہ تک محیط ہے اور اپریل مئی 2019ء میں ہونے والے عام انتخابات میں 91کروڑ سے زائد ووٹرز میں سے 67فیصد نے 542حلقوں میں ان مشینوں کے ذریعے ووٹ ڈالے۔ پاکستان میں اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے لیے اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو الیکشن شیڈول میں تبدیل کرتے ہوئے انتخابات ایک ہفتہ تک بڑھانے ہوں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں مناسب وقفہ دینا ہو گا جس طرح فروری 1997ء کے انتخابات سے پیشتر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تین روز کا وقفہ ہوتا تھا؛ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے ایک ہی دن میں الیکشن کرانے کے لیے آرڈی ننس جاری کیا تھا جب کہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سردار فخرعالم نے مخالفت کی۔
لیکن معراج خالد (نگران وزیراعظم) نے اور فاروق لغاری نے محض ایک ہی دن میں انتخابات کرانے کے لیے اس لیے آرڈی ننس کو جاری کیا تھا کہ ان کو خدشات تھے کہ اگر قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں ان کی خواہش کے مطابق نشستیں حاصل نہ ہو سکیں تو قوی امکان ہے کہ بے نظیر بھٹو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے آئینی بحران پیدا کر سکتی ہے جس طرح پاکستان قومی اتحاد نے 7 مارچ 1977ء کے قومی اسمبلی کے نتائج دیکھ کر صوبائی اسمبلیوں کا بائیکاٹ کر دیا تھا جن کے انتخابات دس مارچ 1977ء کو ہوئے تھے اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مواقع پر پولنگ اسٹیشنوں میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے لیے انتخابی شیڈیول پر نظرثانی کرناہوگی۔
ظفراللہ خان
کنوینر پارلیمنٹری ریسرچ گروپ
پاکستان کے سارے سیاسی بحران ’’انتخابی نتائج‘‘ کی ہمت کے اردگرد گھومتے ہیں۔ پھر بھی کتنے دکھ کی بات ہے کہ اہل سیاست ایک شفاف اور قابل اعتماد نظام نہیں بناسکے۔ آج ٹیکنالوجی کو نسخہ کیمیا کہا جارہا ہے لیکن زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا جارہا۔ بیرون ملک پاکستانی تو شاید اس نظام سے کوئی فائدہ اٹھالیں اگر انہیں ووٹ کا پورا حق مل جائے اور وہ امیدوار بھی ہوجائیں لیکن پاکستان کے ہر گوٹھ، دیہات میں تو بجلی بھی نہیں، انٹرنیٹ کا کیا سوال۔
اسی وجہ سے 2018 میں آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ ایسے ٹیکنالوجی گیپ دھاندلی کی گنجائش چھوڑتے ہیں۔ انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے دو انداز ہوتے ہیں۔ روایتی نظام کے کچھ پہلو ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹھیک کرلئے جائیں۔ انہیں معاون ٹیکنالوجی کہتے ہیں۔ مثلاً 8300 کے ٹیکسٹ مسیج کے ذریعہ اپنے ووٹ اور پولنگ اسٹیشن کی درست معلومات حاصل کرلی جائیں، رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ نتائج جلدازجلد مرتب کرلئے جائیں۔ دوسرا انداز روایتی نظام کا مکمل خاتمہ اور کلی طور پر ٹیکنالوجی پر انحصار ہے۔
میرے خیال میں ابھی یہ وقت نہیں آیا کیونکہ 100 فیصد ٹیکنالوجی تبھی ممکن ہے جب پورا انفرا اسٹرکچر ہو۔ بجلی بھی ہو، انٹرنیٹ بھی ہو اور فون کے سگنل بھی ہوں ورنہ جہاں جو کچھ نہیں ہوگا وہی ’’دھاندلی کی گنجائش‘‘ ثابت ہوگا۔ پھر سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیا نادرا کے جاری کردہ تمام شناختی کارڈوں کے پیچھے ’’مکمل بائیو میٹرکس‘‘ کا نظام ہے۔ میری ناقص معلومات کے مطابق تمام شناختی کارڈوں کے پیچھے مکمل بائیو میٹرکس نہیں ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تجرباتی طور پر الیکٹرانک مشین استعمال کیں شاید چند ضمنی انتخابات میں اور ان کی رپورٹیں بھی تیار کیں جن پر پارلیمنٹ میں ایک منٹ بھی بحث نہیں ہوئی۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مشینوں پر انحصار ختم کیا گیا کیونکہ انہیں ’’ہیک کرنے‘‘ کی گنجائش زیادہ تھی۔ میں ذاتی طور پر ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں لیکن اس کے سارے رسک دیکھ کر مربوط انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آج کا سچ تو یہ ہے کہ ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ تک مکمل معلومات فراہم نہیںکرتی کجا اس کی مکمل ٹیکنالوجی پر شفٹنگ ہوجائے۔ کیا سینیٹ کے انتخابات میں امیدواروں کے نامزدگی فارم ان کے اثاثوں کی تفصیل وغیرہ ویب پر آئی آپ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ دیکھئے اور جواب نفی میں آئے گا۔
ہاں پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک بار الیکشن کمیشن کے ایک سابق سیکریٹری نے بتایا کہ پہلے ہمیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے نظام عوام کی توقعات کے مطابق بنانا ہے یا اس میں سیاسی انجینئرنگ کی گنجائش چھوڑنی ہے۔ کیونکہ ایک اچھے اور شفاف نظام میں سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوسکتی۔ پھر ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہمیں انگریز کا نظام ورثہ میں ملا۔ ہم نے اس میں جھرلو کا پیوند 1950 کے عشرے میں ہی لگادیا۔ پھر ہم نے ایگزیکٹو آئین کے تحت بنیادی جمہوریتوں کا ڈرامہ رچایا اور فاطمہ جناح بھی ہار گئیں۔ 1970 میں بالغ رائے دہی آئی تو انتخابی نتائج ہضم نہ ہوئے۔
بعدازاں پارلیمنٹ نے اچھے برے قوانین بنائے، عدلیہ نے ورکرز پارٹی کیس میں انتخابی اصلاحات کی کوشش کی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء سیاسی سوچ کی بڑی پیش رفت تھی لیکن اسے بھی برباد کردیا گیا۔ اب تو سیاسی اتفاق رائے ایک خواب ہے کیونکہ ہماری سیاست افقی اور عمودی طور پر منقسم ہوچکی اور آج اہل سیاست ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کے بھی روادار نہیں ایسے میں کسی بڑے سیاسی اتفاق رائے کی امید دیوانے کا خواب ہوگی۔
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان اچھی انتخابی اصطلاحات کے لیے برسوں سے ترس رہا ہے اور شاید یہ واحد راستہ ہے جو ’’ہمہ وقت سیاسی بخار میں مبتلا نظام‘‘ کو کوئی استحکام اور ٹھہرائو کا راستہ دیکھائے۔ ہم نے ایگزیکٹو، مارشل لاء اور عدالت کی ناکام اصلاحات دیکھی ہیں۔ اہل سیاست کی بھی کچی پکی اصلاحات دیکھی ہیں۔ سبھی کچھ ناکام ہوا۔ وقت آگیا ہے کہ اہل سیاست پہل کریں اور اہل علم مل بیٹھیں اور قوم کوایک اچھا انتخابی نظام دیں جس کی بنیاد اعتماد پر ہو وگرنہ بحرانوں کی دلدل میں تو ہم 74 سالوں سے ہیں اور اس میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ سیاسی اور انتخابی اصلاحات کے لیے پہلی سیڑھی سیاسی قوتوں کا بامقصد ڈائیلاگ ہے کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟
احمد بلال محبوب
صدر، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ)
حکومت نے ایک بار پھر اہم انتخابی اصلاحات متعارف کرانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عمران خان الیکٹرانک ووٹنگ کی وکالت کرتے رہے ہیں،انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کو کرکٹ کے ''غیر جانبدار امپائروں'' سے تشبیہ دی تھی۔الیکٹرانک ووٹنگ کے فوائد ہیں جیسے نتائج کی درستگی ، رفتار اور غیر قانونی ووٹوں کا خاتمہ۔ لیکن تمام فریقوں کا گارنٹیڈ اعتماد الیکٹرانک ووٹنگ پرنہیں ہے۔ در حقیقت، امریکا اور ہندوستان سمیت متعدد ممالک میں ووٹ ڈالنے کے اس انداز کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔
جرمنی، فرانس اور ہالینڈ سمیت متعدد ممالک نے اس کو اپنانے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ ترک کردی۔اس کی بنیادی وجہ شفافیت کا فقدان ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی بنیاد پروگرامڈ چپ ہے۔ برسوں سے متعدد ہندوستانی سیاست دانوں نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ،ان میں سے کچھ عدالتوں میں گئے۔ کہ وہ ہر ووٹ کے لئے کاغذی ٹریل مہیا کریں تاکہ وہ نتائج سے مقابلہ کرسکیں۔ اس کے نتیجے میں، ہندوستانی ای وی ایم کو کاغذی ٹریل بھی مہیا کرنے کے لئے، بھاری قیمت پر، دوبارہ تشکیل دے دیا گیا لیکن شکوک و شبہات جاری ہیں۔ پاکستان میں انتخابی نظام سازشی تھیوریوں کی وجہ سے اور بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
ای وی ایم ان شکوک و شبہات کو مزید بڑھا سکتے ہیں کیونکہ چپ پروگرام کو آنکھ سے دیکھا نہیںجاسکتا ہے۔اس کے علاوہ، ای وی ایم چپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ذریعے انتخابی نتائج میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مثال کے طور پر، نتائج کے ٹرانسمیشن کا نظام انتہائی مشکوک حالات میں 2018 کے انتخابات کے دوران منہدم ہوا اور اس کی کوئی مناسب تحقیقات نہیں ہوسکی ۔ای وی ایم کی مالی فزیبلٹی ایک اور مسئلہ ہے جس پر غور کی ضرورت ہے۔
2017 میں، ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ تقریباًتین لاکھ ای وی ایم کی ضرورت ہوگی جس کے لئے اسٹوریج، سروس اور تربیت کی لاگت کو چھوڑ کر تقریبا 45 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔یہ لاگت اب نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بیرون ملک سے ووٹ ڈالنے کی سہولت کا اعلان کیا۔ ای سی پی نے حکومت کو انٹرنیٹ ووٹنگ سے متعلق اپنی فزیبلٹی رپورٹ پیش کی تھی۔
ووٹوں کی رازداری اور ہزاروں میل دور بیٹھے ووٹر کی آزاد مرضی کی تصدیق کے بارے میں خدشات ہیں۔ چونکہ انٹرنیٹ رائے دہندگی کے لئے کسی ای میل پتے کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا بڑی تعداد میں نیلے رنگ کے مشترکہ کارکنان جو ای میلز کا استعمال نہیں کرتے انہیں خارج کردیا جائے گا۔
ان خدشات کو پارلیمنٹ کو قریب سے جانچنے کی ضرورت ہے۔خفیہ رائے شماری کے موجودہ نظام کی بجائے سینیٹ کے انتخابات کو کھلا بنانے کے بارے کی تجویز کا جہاں تک تعلق ہے۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ خفیہ رائے شماری نے بدعنوانی اور ووٹ بیچنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔اگر کچھ مشکوک مقدمات موجود ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے پورے نظام کو تبدیل کرنا دانشمندی ہے؟ اگر ہم اپنے اراکین پارلیمنٹ کو روبوٹ نہیں بنانا چاہتے تو قانون سازوں کی آزادی اور بیلٹ کے راز کے مطابق جیسا کہ آئین میں فراہم کیا گیا ہے، کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے۔
اگر سسٹم کو تبدیل کرنا ہو تو، ہاتھ دکھانے کے عمل سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پارٹیوں کو صوبائی اسمبلیوں میں اپنی طاقت کے تناسب کے مطابق سینیٹ کی نشستیں تفویض کی جانی چاہئے جیسا کہ خواتین اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے معاملے میں کیا جاتا ہے۔
1973 کے آئین کو منظور کیے جانے کے بعد سے پاکستان کا سینیٹ موجود ہے۔ اس دوران، سینیٹرز کا انتخاب ہمیشہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں کھلے عام بیلٹ سسٹم کا مطالبہ کرنے کے لئے کچھ آوازیں آتی رہی ہیں، لیکن کبھی بھی یہ تجویز نہیں کیا گیا کہ آئین کے تحت سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے تحت کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ سمجھا گیا کہ سینیٹ کے خفیہ رائے شماری کے نظام میں تبدیلی کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل 226 میں لکھا گیا ہے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے علاوہ، آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے۔ حالیہ دنوں تک وسیع اتفاق رائے تھا کہ آئین کے تحت ہونے والے تمام انتخابات کے جملے میں سینیٹ کا انتخاب بھی شامل ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لئے خفیہ بیلٹ سسٹم کو ختم کرنے سے انتخاب کی آزادی پر شدید اثر پڑے گا جو اس نظام نے اب تک ارکان اسمبلی کو فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں، جہاں راجیہ سبھا کا انتخاب کھلی رائے شماری کے ذریعہ کرایا جاتا ہے اور ریاستی قانون سازوں کو رائے دہندگی سے قبل اپنی مجاز پارٹی کے نمائندوں کو اپنا ووٹ دکھانے کی اجازت ہے، پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنا انحطاط نہیں سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے اراکین پارلیمنٹ کے لئے انتخابی آزادی سے متعلق متعدد آپشنز پر تجربہ کیا ہے۔ابتدا میں، 1973 کے آئین میں قانون سازوں کے ذریعہ اس طرح کے انتخاب پر کوئی بڑی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی دوسری میعاد کے دوران، اراکین پارلیمنٹ پر متعدد پابندیاں عائد کی گئیں۔ ایک نقطہ یہ کہ ان کے ذریعہ تقریبا تمام ووٹنگ کو پارٹی ہدایت کے مطابق ہونا پڑا۔ جنرل مشرف کے دور میں اور بعد ازاں 18 ویں ترمیم کے ایک حصے کے طور پر پیش آئینی ترامیم کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اس ضمن میں کچھ آئینی توازن حاصل کرلیا ہے۔چار الگ الگ کام ہیں، یعنی وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ کا انتخاب، وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ کے لئے اعتماد یا عدم اعتماد، آئینی ترمیم اور منی بل جس پر ارکان اسمبلی کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوگا، بصورت دیگر انحراف پر شق کا اطلاق ہوتا ہے۔
اگرچہ حکومت نے کہا ہے کہ وہ پارٹی لائن کے خلاف سینیٹرز کو ووٹ ڈالنے سے انحراف شق کے دائرہ کار میں نہیں لانا چاہتی ہے، لیکن کھلی رائے شماری سے یقینی طور پر ارکان اسمبلی کی انتخابی آزادی پر پابندی ہوگی اور سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت مزید کمزور ہوگی۔اگر ایسے مواقع موجود ہیں کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ سینیٹروں کو مالیاتی لالچ کے تحت ووٹ دیتے ہیں تو، حل یہ ہے کہ تمام اراکین اسمبلی کی آزادی کو محدود نہ کیا جائے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پارٹی کا امیدوار چنتے وقت زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی جائے۔
قریب آٹھ ملین بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے جو 140 ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں، ووٹنگ ایک جذباتی اور دیرینہ مسئلہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں رائے دہندگی کا حق نہیں ہے، جیسا کہ عام طور پر میڈیا یا عوامی گفتگو میں پیش کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی پاکستانی شہری جو ووٹر کی حیثیت سے اہل ہے، اسے اپنی رہائشی جگہ سے قطع نظر ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی قوانین صرف اپنے انتخابی حلقوں سے دور تعینات سرکاری افسران، ان کے قریبی خاندان اور قیدیوں کو پوسٹل بیلٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔
حکومت نے انتخابی قوانین (ترمیمی) آرڈیننس، 2013 کو 9 مئی، 2013 کو جاری کیا، جو عام انتخابات سے محض دو دن قبل ہی ایک باقاعدہ رسمی کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، لیکن یہ سہولیات کی فراہمی کے لئے آئین کی کتابوں پر پہلا قانون تھا۔ انتخابات بل، 2017 کے مسودے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کی سہولت موجود ہے لیکن اس کے نفاذ کا وقت اور حد ای سی پی کے پاس ہے۔ اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ ملک سے باہر ووٹنگ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ انتخابی ایکٹ میں بغیر کسی پریشانی کے رہ جانے والا ایک اہم سوال انتخابی اخراجات کی حد سے متعلق ہے۔