• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بھی مندمل نہیں ہوتے۔ انہی میں سے ایک زخم 1971میں پاکستان کا دولخت ہونا تھا جو 50 سال گزرنے کے بعد آج بھی پاکستانیوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش نے اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی جس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا مگر بنگلہ دیشی عوام نے ایک مسلمان دشمن جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، کو مدعو کرنا گوارا نہ کیا اور وہ سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس سے جھڑپوں میں اب تک 15 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔ مظاہرین کے بقول مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم ڈھارہی ہے جبکہ بنگلہ دیش سے متصل سرحد پر بھی بھارتی فورسز کئی بنگلہ دیشی شہریوں کو شہید کرچکی ہیں مگر وزیراعظم حسینہ واجد پر اس احتجاج اور اموات کا کوئی اثر نہ ہوا۔

گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب میں مودی نے یہ دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش بنانے کی جدوجہد میں وہ بھی جیل گئے تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل مودی اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں بھارت نے بنگلہ دیشی عوام کا ساتھ دیا تھا اور بھارتی کمانڈو فورس مکتی باہنی کی شکل میں پاکستانی افواج سے لڑنے کیلئے مشرقی پاکستان میں داخل کی تھی جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کو آزادی ملی۔شاید یہ اعتراف کرکے نریندر مودی، حسینہ واجد کو یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ تمہاری وزارت عظمیٰ ہماری مرہون منت ہے اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان ماضی کی تلخیوں کو ہوا دے کر فاصلے پیدا کرنا چاہتے تھے۔ نریندر مودی، بنگلہ دیش میں اسلامی رہنمائوں کی سزائے موت کی حمایت بھی کرتے رہے ہیں جس میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کئی بزرگ رہنمائوں کو محض اِس لئے تختہ دار پر لٹکادیا گیا کہ وہ پاکستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔

جس طرح پاکستانی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر ہمیں آزادی نہ ملتی تو آج ہم بھارت میں ہندوئوں کے مظالم کا شکار ہورہے ہوتے اور وہ ترقی نہ کرپاتے جو ہم نے آزاد وطن میں حاصل کی۔ کچھ اسی طرح کی سوچ بنگلہ دیش میں بھی پروان چڑھی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی پاکستان جسے ہم ماضی میں اپنے وسائل پر بوجھ سمجھتے رہے تھے، آج 50 برسوں میں بنگلہ دیش کی جی ڈی پی گروتھ 5.2جبکہ پاکستان کی منفی 0.4ہے۔ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 42ارب ڈالر جبکہ پاکستان کے 20 ارب ڈالر ہیں۔پاکستانی155روپے جبکہ بنگلہ دیش 84ٹکا ایک ڈالر کے برابر ہیں۔ بنگلہ دیش میں فی کس سالانہ آمدنی 2064ڈالر جبکہ پاکستان میں 1130ڈالر ہے۔

میں بزنس کے سلسلے میں بنگلہ دیش جاتا رہتا ہوں اور ان کی ترقی اور پالیسیوں کا معترف ہوں جس میں حکومت عوام کو سطح غربت کی لکیر سے اوپر لانے میں مصروف عمل ہے۔ حکومت کی پوری توجہ ملکی معیشت پر مرکوز ہے اور دنیا میں مثال بنی ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش کے فوج سمیت تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے حکومت کو مضبوط کرنے میں اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پاکستان دولخت ہونے کی وجوہات میں سیاستدانوں کی حصول اقتدار کیلئے جنگ، دیرینہ دشمن کے مذموم عزائم سے مجرمانہ چشم پوشی، مشرقی پاکستان کے لوگوں میں احساس محرومی جیسے عوامل شامل تھے۔ اس دوران فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیاں اس وقت کے حکمراں جنرل یحییٰ خان کو مسلسل رپورٹ دے رہی تھیں کہ بھارت مشرقی پاکستان میں واضح طور پر مداخلت کررہا ہے جبکہ اسی طرح کی معلومات ایک دوست ملک نے بھی فراہم کیں مگر جنرل یحییٰ خان نے الزامات کو سنجیدگی سے نہ لیا اور جب حقیقت کا ادراک کیا تو اس وقت تک صورتحال قابو سے باہر ہوچکی تھی۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیابی کے بعد آج بھارت پاکستان داخلی انتشار پھیلانے میں پھر سے کوشاں ہے۔

یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ سقوط ڈھاکہ پر قائم ہونے والے کمیشن کی رپورٹ کھل کر منظر عام پر نہ آسکی اور آنے والی نسل پاکستان کے دولخت ہونے کے ذمہ داروں اور وجوہات سے لاعلم ہے۔ہمیں ان وجوہات کو بھی تلاش کرنا ہوگا جن کی وجہ سے ہم ترقی میں پیچھے اور ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ان غلطیوں کا اعتراف کریں جن کے باعث مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا اور بنگلہ دیش بن کر ترقی کے سفر میں ہم سے آگے نکل گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین