• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کووِڈ-19کے بعد ملینئلز کی اپنا گھر خریدنے میں دلچسپی

کورونا وَبائی مرض کے بعد سے ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں مِلینئلز (اس دورانیے میں عمومی طور پر1981ء تا 1996ء کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو گِنا جاتا ہے) نے سب سے زیادہ ریئل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی ہے اور اپنے لیے گھر خریدے ہیں۔

یہ بات ایک بین الاقوامی سروے میں سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت اکثر ملینئلز جب اپنی ازدواجی زندگی شروع کرچکے ہیں یا کرنے والے ہیں، وہ اپنا گھر خرید کر ’’امریکن ڈریم‘‘ حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔

سروے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پہلی بار گھر خریدنے کے متمنی ایک تہائی ملینئلز اپنے بجٹ کے مطابق گھر حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کے باوجود، ریئلٹر ڈاٹ کام کی ہفتہ وار ہاؤسنگ ٹرینڈ رپورٹ کے مطابق، سالانہ بنیاد پر گھروں کی قیمتوں میں اوسطاً 15.6فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ مسلسل 32واں ہفتہ ہے کہ گھروں کی قیمتوں میں دو ہندسوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اوسطاً ایک گھر آٹھ دن کم مدت میں فروخت ہورہا ہے۔

سروے کے سینئر اکانومسٹ جارج راٹیو اپنی تحقیق کے چند چیدہ چیدہ نکات بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس سروے کی سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملینئلز اپنا گھر خریدنے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اپنی ایکویٹی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نسل ہے، جسے ایک دہائی قبل روایتی اثاثہ جات کو نظرانداز کرنے کے باعث کوسا جاتا تھااور وہ اپنا گھر خریدنے کے بجائے کار خریدنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، تاہم اب وہ جیسے جیسے زندگی میں میچورٹی کی طرف آرہے ہیں، ان کی دلچسپی اپنا گھر بنانے میں بڑھتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہے‘‘۔

سروے کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ، آج کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کے چیلنجز کے باوجود، ملینئلز ’’وِننگ آفر‘‘ دینے پر یقین رکھتے ہیں، جو کہ اکثر اوقات کسی بھی ریئل اسٹیٹ پراپرٹی کی مارکیٹ قیمت سے نسبتاً اوپر ہی ہوتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملینئلز اپنا گھر خریدنے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں اور وہ ایک اچھا سودا قیمت کے معمولی سے فرق سے نہیں کھونا چاہتے۔

ان ملینئلز کو آخر کیا چیز حوصلہ دے رہی ہے؟ ’’تحقیق بتاتی ہے کہ تقریباً دو تہائی ملینئلز اور 45فی صد جنریشن زیڈ سے تعلق رکھنے والے نوجوان یہ کہتے ہیں کہ وہ گھر اس لیے خریدنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ایک گھر کے مالک بننا چاہتے ہیں‘‘۔

سیلیکون ویلی، امریکا میں ملینئلز کے لیے ایک بڑی آماجگاہ ہے، یہاں بھی کئی ملینئلز اپنا گھر خریدنے کا خواب رکھتے ہیں اور اسے شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔کیٹ کیرول ایک بروکر ایسوسی ایٹ ہیں، جو کہ خود بھی ملینئل ہیں۔ کیٹ کہتی ہیں، ’’میں جہاں تک سمجھ سکی ہوں ملینئلز اس وقت دو وجوہات کے باعث گھر خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت گھر خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا گھر واقعی خریدنا چاہتے ہیں‘‘۔ 

وہ مزید کہتی ہیں کہ، ’’میرے زیادہ تر کلائنٹس ٹیک انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ ایک سال کے دوران ٹیک اسٹاکس میں 30فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ان میں سے اکثر کرایہ کے اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے اور کورونا وبائی مرض کے آنے سے قبل اپنا گھر خریدنے کے انتہائی قریب تھے‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ، اکثر ملینئلز 2020ء کے آس پاس اپنا گھر خریدنے کا سنجیدہ فیصلہ کرچکے تھے اور کورونا وبائی مرض نے ان کی اس خواہش کو مزید بڑھادیا ہے۔ اس کی ایک وجہ وبائی مرض کے باعث ریئل اسٹیٹ کی قیمتوں میں کمی آنا بھی ہے۔

’’وبائی مرض سے پہلے ملینئلزکی آمدنی کا ایک بڑا حصہ سیرو سیاحت پر بھی خرچ ہورہا تھا اور چونکہ وبائی مرض کے بعد سیر و سیاحت کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا تھا تو اس کا فائدہ ان کی بچتوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا۔ ساتھ ہی انھیں اس بات کا احساس بھی ہوا کہ اپنا گھر ہونا زندگی میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے‘‘، وہ کہتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، ملینئلز کے اپنا گھر خریدنے کی کئی وجوہات بھی وہی ہیں تو جو بے بی بومر یعنی ان کے والدین کی تھیں۔ سروے میں جب پوچھا گیا کہ وہ اپنا گھر کیوں بنانا چاہتے ہیں تو سب سے نمایاں دو جوابات سامنے آئے،’ ’میں ایسا گھر خریدنا چاہتا ہوں، جس کی امپروومنٹ پر میں گاہے بگاہے سرمایہ کاری کرتا رہوں‘‘ اور دوسرا ’’میں اپنی ایکویٹی بنانا چاہتا ہوں‘‘۔

اپنا گھر خریدنے کی خواہش رکھنے والے ملینئلز انتہائی پرجوش، لچکدار اور پرعزم ہیں۔ ’’پہلی بار اپنا گھر خریدنے والے 40فی صد ملینئلز ایک سال تک اپنے لیے بہترین گھر تلاش کرنے میں لگا دیتے ہیں، جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ایک ایسی نسل دیکھ رہے ہیں، جو اپنے ارادوں میں پختہ ہے‘‘۔

تازہ ترین