• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند ہفتوں کے اندر اندر کندھوں پر کتابوں کا قرض اتنا بڑھ چکا کہ اسے چکانا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔اس سے پہلے کہ اس قرض کی ادائیگی ممکن نہ رہے، پہلی قسط چکانا ضروری ہو چکا کہ ان کتابوں کے ساتھ کچھ مسودے بھی ہیں یعنی آج کا کالم اس پاکیزہ قرض کی ادائیگی کی پہلی قسط ہے جس میں چند کتابیں اور ایک مسودہ شامل ہے ۔امید ہے قارئین اور قرض خواہ یہ قسط خوشی خوشی قبول فرمائیں گے۔

میں نے زندگی میں بہت سفر کئے ،بہت سفر نامے پڑھے لیکن نہ میں مسافر ہوں نہ مہاجر۔ سیاحت سراب کے سوا کچھ بھی نہیں سچ تو یہ کہ پاکستان کیا، میں تو آج تک اپنا لاہور بھی پوری طرح نہ دیکھ سکا کیونکہ ایک شہر کو جاننے کیلئے بھی ایک سے زیادہ زندگیاں درکار ہیں مثلاً اندرون شہر لاہور میں چند سال گزارے بغیر تو آپ اس کے حقیقی کلچر کی الف بے بھی نہیں جان سکتے یعنی اچھے سے اچھا سیاح بھی مختلف مقامات سے ہوا کی طرح گزر جانے کے بعد یہ احمقانہ دعویٰ داغ دیتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں فلاں ملک یا شہر دیکھے ہیں حالانکہ مسافر ہو یا سیاح ....صرف محسوس کرتا ہے، دیکھ نہیں سکتا۔

سب سے پہلے دو سفرنامے جو اپنی نوعیت کے انوکھے اور منفرد ترین سفرنامے ہیں، قصے، کہانیاں، افسانے نہیں، واقعی سفر نامے .....’’سیون سٹار‘‘ سفر نامے نہیں، سیچ مچ کے سفر نامے جن کی تھکن، چبھن اور پھبن پڑھنے والا پوری طرح محسوس کر سکتا ہے اور یہی ان سفرناموں کا کمال ہے ۔پہلے کا نام ہے ....’’سفر تین درویشوں کا‘‘ جو بقول ’’مسافر‘‘ محمد اختر ممونکا میرا من دہلوی کے ’’قصہ چہار درویش‘‘ سے متاثر ہو کر رکھا گیا۔یہ سفر تھائی لینڈ سے فلپائنز تک پھیلا ہوا ہے ۔پہلا درویش عمر کا پختہ، قد کا پستہ ہے ۔چلے تو ایسا گمان ہوتا ہے جیسے جاپانی کھلونے کو چابی دیکر چھوڑ دیا گیا۔دوسرا درویش قد میں سب سے چھوٹا اور جسم میں سب سے موٹا ہے۔تیسرا درویش یعنی خود مصنف محمد اختر ممونکا ہینڈسم آدمی (اب ادھیڑ عمر ) جو اپنے بارے لکھتا ہے ’’چال بھی دیسی، چلن بھی .....چرب زبان، بے لگام اور طوطا چشم ....طوطا چشمی چھپانے کیلئے اکثر چشمہ لگائے رکھتا ہے‘‘۔دوسرا سفر نامہ ’’پیرس 205کلومیٹر ‘‘ بھی اختر ممونکا ہی کا ہے جس کے بغیر میری لائبریری ادھوری تھی حالانکہ اسی میں ابن انشا سے لیکر مستنصر حسین تارڑ جیسے مسافر بھی موجود ہیں۔

تیسری کتاب صابر ظفر کا شعری مجموعہ ’’ آتش بیگانگی‘‘ہے جس کے جملہ حقوق شاعر کی اولاد کے نام محفوظ ہیں حالانکہ بہت سے شعر میرے دماغ میں محفوظ ہو گئے جن سے آپ بھی محظوط ہو سکتے ہیں مثلاً،

جلا دیا ہے اگر آپ نے قفس میں چراغ

تو کیا سمجھ لیں ہمیں مل گیا سحر کا سراغ

چالیس سے زائد شعری مجموعوں کا خالق صابر ظفر کہتا ہے ۔

خبر ہے گرم کہ ہے آج میرے قتل کی رات

کہاںگئے مرے بازو کہاں گئے مرے ہات

عجیب اتفاق ہے کہ میں یہ شعر 4اپریل کے روز پڑھ رہا ہوں جو ذوالفقار علی بھٹو کا یوم قتل ہے یا یوم شہادت، میں نہیں جانتا لیکن ’’یوم ندامت‘‘ضرور ہے ۔اک اور شعر ملاحظہ ہو،

اجل ہے چاروں طرف، زندگی کدھر جائے

وہ مر ہی جائے کہ جس کا ضمیر مر جائے

اور اس کے بعد کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔

مجھ سے خالی کرا لیا گیا ہے

ہر نفس تھا مکاں کرائے کا

اگلی کتاب ہے جمیل اطہر قاضی کی جو میری طرح لائل پوریا ہے ۔زندگی کے 64برس صحافتی صحرا میں گزار دیئے اور چشم بددور....پھر بھی تروتازہ۔ کتاب کا عنوان ہے ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘۔ میں بھی سلام کیلئے حضرت مجدد الف ثانی کے سرہند حاضری دے چکا ہوں اور پیلے پھولوں والی جوگن کے وہ پھول آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں جو میں ان کے مزار پہ لگی بیل سے چن کر لایا تھا ۔اس کتاب کا حق کالم کی صورت ادا کرنا ممکن نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ کتاب پڑھے بغیر آپ اپنی صحافتی تاریخ سے واقف ہو ہی نہیں سکتے کہ یہ صحافت کے ہر طالب علم کی جینوئن ضرورت ہے ۔

اور اب آخر پہ ایک مسودہ ’’آزادی کی متوالی‘‘ جو ہمیں مادر حریت بیگم مریم جناح کی سیاسی جدوجہد سے ملواتا ہے ۔ڈاکٹر سعد خان کا یہ فکری احسان ہے کہ اک ایسے موضوع پر کتاب لکھی جس پر اس سے پہلے شاید ہی کسی نے لکھا ہو ۔یہ کئی کتابوں کا نچوڑ اور 5نامور شخصیات کے تفصیلی انٹرویوز کا عطر ہے جس پر ڈاکٹر سعد خان مبارک باد اور تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ اس سے پہلے اس موضوع پر ایسا کام کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین