گزشتہ کئی دنوں سے ٹی وی اور اخبارات میں آئی ایم ایف کے دبائو پر اسٹیٹ بینک کو دی جانے والی خود مختاری کیلئے ترمیمی ایکٹ 2021کے مسودےپر بحث جاری ہے جس کے مطابق اسٹیٹ بینک مکمل طور پر ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بن کر ریاست کے اندر ریاست کے طور پر کام کرے گا۔نئے ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالیسیوںپر جوابدہ نہیں ہوگا جن میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا، روپے کی قدر میں استحکام رکھنا اور معاشی گروتھ میں اضافہ سرفہرست ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی گروتھ کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے جو معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ گزشتہ برس 70سال میں پہلی بار ملکی جی ڈی پی گروتھ منفی تھی اور کورونا وائرس کی وجہ سے اس سال بھی جی ڈی پی گروتھ کا ہدف صرف 1.5سے 2فیصد رکھا گیا ہے۔نئے ایکٹ کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت 3سال سے بڑھاکر 5سال کردی گئی ہے جس میں مزید 5سال کی توسیع کی تجویز ہے اور کسی سنگین غلطی جس کا فیصلہ عدالت کرے گی، پر صرف صدر پاکستان گورنر اسٹیٹ بینک کو عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔ ایکٹ کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک، ڈپٹی گورنرز، بورڈ آف ڈائریکٹرز اور دیگر ملازمین کو سرکاری قوانین، نیب اور ایف آئی اے کی ہر طرح کی کارروائی سے چھوٹ حاصل ہوگی اور یہ ادارے گورنر اسٹیٹ بینک یا کسی اعلیٰ عہدیدار کے خلاف کارروائی نہیں کرسکیں گے۔ نئے ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں حکومتی نمائندگی نہیں ہوگی۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں مرکزی بینک کا گورنر اتنا بااختیار نہیں اور اسی وجہ سے میں ہمیشہ چیک اینڈ بیلنس کا حامی رہا ہوں۔ دنیا بھر کے مرکزی بینک اپنی حکومتوں کیلئے ضروریات کے مطابق کرنسی نوٹ پرنٹ کرتے ہیں لیکن نئے قانون کے بعد اسٹیٹ بینک کا حکومت کیلئے کرنسی نوٹ پرنٹ کرنا ممکن نہیں رہےگا۔ حکومت، اسٹیٹ بینک کے ذریعے قرضے نہیں لے سکے گی بلکہ اسے کمرشل بینک سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے جس کا حکومت پر اضافی مالی بوجھ پڑے گا۔ حکومت انتہائی مشکل حالات میں ایکسپورٹ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے اسٹیٹ بینک کے ذریعے مالی مراعات نہیں دے سکے گی جیسا کہ حکومت نے گزشتہ سال کورونا وبا کے دوران 2فیصد شرح سود پر اسٹیٹ بینک کے ذریعے 420ارب روپے کے قرضے صنعتی شعبے کو ورکرز کی اجرتوں کیلئے دیئے تھے۔
گزشتہ 20سال سے میں ہمیشہ ایک مثبت لکھاری رہا ہوں۔ میرے کالمز ڈیٹا اور تجاویز پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن اس بار بے شمار قارئین نے مجھ سے اسٹیٹ بینک کی اضافی خود مختاری اور اسکے مستقبل میں ملکی معیشت پر اثرات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے رائے دینے کو کہا ہے۔ اس موضوع پر مختلف ٹی وی پروگراموں میں بتایا تھا کہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے کافی عرصے سے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری اور کنٹرول حاصل کرنے کیلئے کام کررہے تھے مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے لیکن اب آئی ایم ایف کی 500ملین ڈالر کے قرضے کی نئی قسط کی وصولی کیلئے حکومت، اسٹیٹ بینک کو اس حد تک آزاد اور خود مختار بنانے کیلئے تیار ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ترمیمی ایکٹ 2021کے بعد حکومت اور وزیر خزانہ کا اسٹیٹ بینک پر کنٹرول ختم ہوجائے گا اور اسٹیٹ بینک کا گورنر ’’وائسرائے‘‘ کی حیثیت سے مرکزی بینک کا چارج لے گا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ نئے ایکٹ کے تحت افراط زر اور جی ڈی پی گروتھ جو حکومت کی ذمہ داری ہے، اسٹیٹ بینک کو منتقل ہوجائے گی۔ اسٹیٹ بینک، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہوگا جو میرے نزدیک ملکی سلامتی کے خلاف ہے جس کی وجہ سے معاشی ماہرین اور بزنس کمیونٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک قوانین میں تبدیلی پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے متوقع کنوینر اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اسٹیٹ بینک کے ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے معیشت کا بیڑہ غرق ہوا۔ یاد رہے کہ اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ بڑھاکر 13فیصد کردیا تھا جو اب کم کرکے 7فیصد کردیا گیا ہے جبکہ ڈی ویلیوایشن کے باعث پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 32فیصد کمی سے 168روپے کی نچلی سطح تک پہنچ گیا تھا جو اب مضبوط ہوکر 152روپے کی سطح پر آگیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا ترمیمی بل بجٹ یعنی فنانس بل کی طرح ہے جس کی منظوری کیلئے قومی اسمبلی سے اکثریتی رائے درکار ہوگی۔ پی ٹی آئی جب برسراقتدار آئی تھی تو اس نے آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے سپرد کرنے جارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن آئی ایم ایف کے دبائو پر مجوزہ بل جلد بازی میں منظور کرنا پاکستان کی معاشی خود مختاری پر سمجھوتہ اور ملکی سلامتی کیلئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ بل پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ملکی مفاد میں فیصلہ کیا جائے۔