• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خورشیدکمال عزیز، کے کے عزیز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔پاکستان کے یہ نام ور تاریخ دان سترکی دہائی کی ابتدا میں ذوالفقار علی بھٹو کے مشیراورتاریخی اورثقافتی تحقیق کے قومی ادارہ کے سربراہ رہےبعدمیں بھٹو حکومت سے نہ بن سکی تو یہ عہدہ چھوڑ دیا۔کے کے عزیزسے سوال بھٹو کے اسی دورکی یادوںسے متعلق تھا۔

جواب میںکہتے ہیں: بھٹومیں بہت خامیاں تھیں۔اپنے جاگیردارانہ پس منظر سے کبھی پیچھا نہ چھڑا سکے۔کسی پراعتماد کرنےمیں جلدی نہ کرتے، تنقیدکا سامناکرنے سے گریزاں رہتے۔تحکمانہ مزاج، حکم دینا پسند تھا۔مگران کے کردارکے کچھ پہلو مثبت بھی تھے۔

’وہ انتہائی محنتی تھے۔دن بھرمیں آسانی سے چودہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرلیتے۔وہ خوش قسمت تھے کہ تین چارگھنٹے کی نیندبھی ان کے لئے کافی تھی۔وہ رات کے آخری پہردوبجے سونے جاتے۔وسیع المطالعہ تھے۔خدا جانے اتنی مصروفیت میں پڑھنے کے لئے وقت کیسے نکالتے۔حیران کن یادداشت تھی اور کتابوں سے لمبے لمبے اقتباسات سنا سکتے تھے۔جب تک میرا ان سے رابطہ رہا انہیں ان کے وزیروں سے زیادہ شائستہ پایا۔جب بھی ان سے ملا، دفتر میں یا گھرپر، کھڑے ہوجاتے اور جب تک میں بیٹھ نہ جاتا نہ بیٹھتے۔بحث میں برابری دیتے۔

’ایک بات میں نے ان سے اپنی دوسری یا تیسری ملاقات میں پوچھی کہ وہ اختیارات بانٹتے کیوں نہیں۔میں نے ان سے کہا کہ ایسا نہ کرنا ان کی صحت اورحکومتی کارکردگی کومتاثرکرسکتا ہے۔زیادہ اہم یہ ہے کہ جاں نشینی کا سلسلہ نہ بنانے سے وہ اپنے سیاسی پروگرام کے آگے بڑھنے کو بھی خطرےمیں ڈال رہے ہیں۔بھٹوصاحب یہ سن کرمسکرائے اورکہا کہ ملک چلانے کا یہی ایک طریقہ ہے اوریہ کہ وہ یورپ میں نہیں ہیں۔میں نے اس سے یہ جانا کہ ان کے اردگردماتحت اورنائب ہی تھے ، رفیق کارنہیں۔‘

کے کے عزیزکے اس جواب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فردہویا سماج ، اس میں کچھ خوبیاں، کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔فردیا سماج کا سنورنا یا بگڑنا ان ہی کے پلڑے کے جھکائو پرمنحصرہوتا ہے۔یہ خوبیاں، یہ خامیاں راستہ متعین کرتی ہیں۔ان ہی سے منزل کا پتا چلتا ہے۔اسی وجہ سے افرادذاتی طورپر خوبیوں میں اضافہ کرکے اورخامیوں پرقابوپاکرخود کو معاشرہ کا بہتر رکن بنانے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔اورسماج کے صاحب عقل وخردافراداپنے تئیں کوشاں رہتے ہیں کہ سماج میں موجود کسی کجی یا کمی کوایک طور سے یا دوسرے طریقہ سے دورکرکے اسے سب کے لئے خوش کن اور خوش گوار بنایا جائے۔

خوب ناخوب جاننے کی تلاش میں سرگرداںا یسے ہی صاحب دانش زمان خان ہیں۔کے کے عزیزسے سوال بھی انہوں نے کیا ۔ سیاست اورانسانی حقوق زمان خان کا میدان ہے۔انہیں دیکھ کر نجانے کیوں شکیل عادل زادہ کے ناول’ بازی گر‘ کے ہیرو بابرزماں خان ذہن میں آجاتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ زمان خان بھی بابرزماں خان کی کورا کے لئے ناتمام تلاش کی طرح ایک ایسے سماج کے لئے گرم دم جستجو ہیں جس میں مساوات ہو، انسانی حقوق کا احترام ہو، تہذیب وثقافت ہو۔زندہ سماج ہو۔

یہ تلاش طالب علمی کے زمانہ سے جاری ہے اور سیاست، سماج، ادب ، صحافت اورسڑک پرمحیط ہے۔ہرجگہ متجسس نگاہوں سے مشاہدہ کرتے، سوال لئے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں، حال کیوں کرسنورے گا، مستقبل کیسے تاب ناک ہوگا۔ان کے یہ انٹرویوز مختلف انگریزی اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔اچھا وہ یہ کرتے ہیں کہ اخبارات کے لئے کیے گئے ادیبوں، شعرا، مورخین اور سیاسی رہنماؤں کے انٹرویوزکو اکٹھا کرتے ہیں۔ ایسے انٹرویوز کا ایک مجموعہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ زمان خان کے انٹرویوز پر مبنی انگریزی زبان میں شائع ہونےوالی نئی کتاب کا نام آلٹرنیٹو وژن یا متبادل سوچ ہے۔ان سڑسٹھ انٹرویوز کا یک جا ہونا یوں بھی مفید ہے کہ مہمان شخصیات میں سے کئی وفات پاچکی ہیں۔ کتاب کی شکل میں ان کی سوچ کو دوام سا ملتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں ادیب ہیں، لکھاری ہیں، موسیقارہیں، تاریخ دان ہیں، سیاست دان ہیں، امن کے داعی ہیں، حقوق کی بات کرنے والے ہیں۔نہ صرف پاکستان سے بلکہ دنیا بھرسے۔ گویا زمان خان نے اپنا دائرہ محدود نہیں رکھا۔اچھی بات جہاں سے ملی، چن لی۔

یہیں شاعرہ اورادیب نسرین انجم بھٹی کہتی ملتی ہیں کہ تحریر کی کوئی صنف نہیں ہوتی۔اور ادیب عبداللہ حسین کہتے ہیں کہ لکھاری کا بنیادی فرض جھوٹ اورنا انصافی پرضرب لگانا ہے۔میراتعلق نہ دائیں بازو سے نہ بائیں سے۔لکھاری کو ان سے مبرا ہونا چاہئے۔

تازہ ترین