• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی کمپنیز پاکستان کے شعبہ توانائی اور ریلوے نظام کو جدید بنانے کو تیار

کراچی ( رفیق مانگٹ) روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف دور وزہ دورے پر پاکستان میں ہیں اس دورے میں جہاںاہم علاقائی و عالمی امور ،افغان امن پر تبادلہ خیال کیاجائے گا، وہی دو طرفہ تعلقات پر بھی بات ہوگی۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے سفارتی،معاشی اور فوجی تعلقات کے تناظر میں ہو رہا ہے۔پاکستانی اور روسی حکام کا کہنا ہے کہ اس دورے میں افغان جنگ کے خاتمے کیلئے جاری سفارتی کوششوں پر توجہ دی جائے گی۔ روسی وزارت خارجہ نے دورے سے قبل اپنے بیان میں کہا تھا کہ دو طرفہ تعلقات کی موجودہ صورت حال کے علاوہ تجارت،اقتصادی اور انسداد دہشت گردی کے تعاون کو مزید تقویت دینے کے مواقع پر بھی بات ہوگی۔روسی اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے اربوں ڈالرکے فلیگ شپ منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔اس سے قبل روسی وزیزر خارجہ نے2012میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔اور اس دورے کے بعد پاکستان کے ساتھ روس کے سرداور بداعتمادی کے تعلقات میں نمایاں بہتری آئی تھی۔ ان تعلقات میں بد اعتمادی1980کے عشرے میں امریکا کے حمایت یافتہ افغان مسلح مزاحمت کی اسلام آباد کی حمایت کے فیصلے کے بعد پیدا ہوئی جس نے ماسکو کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کیا۔گزشتہ برس روس اور پاکستان کے مابین دو طرفہ تجارت ایک کھرب بیس کرورڑروپے(790ملین ڈالر) رہی جو کہ تاریخ میں دونوں ممالک کی تجارت کی بلند ترین سطح ہے جس کی بنیادی وجہ اسلام آباد کو ملکی ضروریات کی کیلئے روسی گندم کی بڑی فراہمی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دونوںممالک کاروباری شراکت میں اضافے کیلئے مل کرکام کر رہے ہیں خاص کر توانائی کے شعبے میں تاکہ روسی توانائی کمپنیوں کیلئے گیس مارکیٹ کھولی جائے۔ ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان2015میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں گیارہ سو کلومیٹر طویل پائپلائن کراچی پورٹ سے لاہور تک تعمیر کرنی تھی تاکہ یومیہ ایک عشاریہ چھ ارب کیوبک میٹر گیس فراہم کی جاسکے۔ روسی نیوز ایجنسی تاس کے مطابق وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ روسی کمپنیاں پاکستان کے توانائی کے شعبے اور ریلوے کے نظام کی جدید کاری میں حصہ لینے کو تیار ہیں۔ ایجنسی کے مطابق2015میں بین الحکومتی معاہدے کے بعدفریقین نے سن2016میں تجارتی معاہدوں پر دستخط کرنے تھے اور2018سے پائپ لائن پر کام شروع کرنا تھا تاہم اس کے بعد اس منصوبے پر عمل درآمد کو متعدد بار ملتوی کیا گیا۔ حالیہ سالوں میں روس اور پاکستان کے فوجی سطح پر بھی تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی،پاکستان نے 2014میں دفاعی معاہدے پر دستخط کیے اور اسی معاہدے کے تحت پاکستان نے چار لڑاکا ہیلی کاپٹر ایم آئی 35ایم حاصل کیے۔،2016میں دونوں ممالک نے بھارت کی مخالفت کے باجود فوجی مشقیں کیں۔پاکستان نے روس کو گوادر پورٹ کے استعمال کی بھی پیشکش کی ۔ 2017میں پاکستان نے روسی ٹی90ٹینکس، الیکٹرانک آلات، ائیرڈیفنس سسٹم خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔روسی خبر ایجنسی ریا نوسٹی نے رواں برس پاکستان میں ہونے والی بحری مشقوں کے آخر پر پاک فوج کے سربراہ کے حوالے سے کہا کہ روس اور پاکستان نے انٹی ٹینک سسٹم،فضائی دفاعی نظام اور چھوٹے ہتھیاروں کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں،لیکن روس کے فوجی تکنیکی تعاون کے ادارے نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔تاہم انہوں نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔ دسمبر میں نئی دہلی میں روسی حکام نے بھارت کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات پر بھارت کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملک کے طور پر ماسکو اسلام آباد کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے عزم پر ہے۔انہوں نے کہاکہ روس پاکستان کے ساتھ تعلقات کے لحاظ سے آزاد ہے اور ہمارا دو طرفہ تجارت اور معاشی ایجنڈا ہے جس کو مزید فروغ دینے کا عزم ہے۔ روسی وزیر خارجہ خطے کا اس لئے دو رہ کررہے ہیں کیونکہ فروری2020معاہدے کے تحت یکم مئی کو امریکی افواج کی افغانستان سے انخلاکی ڈیڈ لائن ہے۔ لیوروف بھارت کا دورہ کرنے کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔انہوں نے نئی دہلی میں کہا کہ افغان خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے کسی بھی سیاسی تصفیے میں طالبان کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔گزشتہ ماہ ماسکو نے افغانستان کانفرنس کی میزبانی کی تھی،جہاں افغان حکومت ،طالبان کے نمائندوں کے ساتھ چینی ،امریکی اور پاکستانی سفارت کار بھی شامل ہوئے۔

تازہ ترین