• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سازشی تھیوریوں کے ہرگز قریب نہ پھٹکنے کے باوجود کورونا سے متعلق میری یہ رائے تھی کہ چونکہ ہمارے ہاں قوت مدافعت بہتر ہے اس لئےممکن ہے کہ بیشتر افراد کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد صحتیاب بھی ہو چکے ہوں اور انہوں نے اس بیماری کو محض عام بخار اور نزلہ زکام سمجھ کر نظر انداز کردیاہو۔ایک اور خوش فہمی یہ تھی کہ کورونا ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑ جائے گا،صحت مند آدمی 14دن کی سزا کاٹنے کے بعد پھر سے زندگی کی تلخیوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوگا۔صرف یہی نہیں بلکہ کورونا کے باعث 14روزہ قید تنہائی میں فرصت میسر آنے کے باعث سوچ وفکر کے نئے دریچے کھلیں گے۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کے خواہشمند درویش، سادھو،بھگت اورصوفی آتم تپسیا کی نیت سے جنگلوں کارُخ کیا کرتے تھے اور پھرسب لذتیں تیاگ کر گہرے مراقبے کی کیفیت میںسوچوں کی اُلجھی ڈور سلجھانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے۔کورونا کی 14روزہ جبری قید کا پروانہ جاری ہونے سے پہلے میں بھی نہ صرف انہی خیالات کا اسیر تھا بلکہ کئی بار تو خیالی گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرتے ہوئے ان خاموش اور تاحد نظر پھیلے ہوئے جنگلات کی سیر کو بھی جا چکا تھا۔بعض خیرخواہوں نے طبی مشوروں سے نوازا تو کئی ایک دوستوں نے انواع اقسام کے سیزن،بہترین فلموں اور ڈراموں کی فہرست فراہم کردی تاکہ وقت گزارنے میں دِقت پیش نہ آئے۔مگر یہ کوئی تفریحی اور معلوماتی یا تفکراتی و مطالعاتی ٹور نہیں تھا۔یہ تو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والی ایسی اذیت ناک قید تھی جس میں قید کاٹنے کے علاوہ کسی اور شغل کی ہرگز کوئی گنجائش نہ تھی۔جب طبیعت ناساز ہوئی ،تیز بخار اور پورے جسم میں زبردست کھچائو کی کیفیت، تو پہلا تاثر یہی تھا کہ کچھ نیا ہو رہا ہے ۔پہلے کبھی اس طرح کی طبیعت نہیں ہوئی۔ٹانگیں بے جان ،یوں جیسے گنے سے رس نکالنے والے بیلنے میں ڈال کر سب توانائی چوس لی گئی ہو۔ایک لمحے کو خیال آیا شاید بیڈ پر سونے کی وجہ سے یا ڈرائیونگ کے سبب کمر میں تکلیف ہو رہی ہے ،ویسے بھی الگ کمرے میں خودساختہ تنہائی اختیار کرنی تھی تو نیچے فرش پر بستر لگالیا۔اس دوران ٹیسٹ کروایا تو مثبت آیا۔بعد ازاں جیسے جیسے بیماری کی شدت کم ہوتی گئی ،ویسے ویسے کمر اور ٹانگوں کا درد بھی ختم ہوتا چلا گیا۔ اکتاہٹ ،بیزاری اور چڑ چڑے پن کا یہ عالم تھا کہ کسی شخص کا غیر ضروری طور پر بات کرنا بھی نہیں بھاتا تھا۔بچوں کو خود سے دور رکھنا ایک اور چیلنج تھا۔طبیعت کھانے پینے کی طرف مائل نہ ہوتی مگر مشوروں کے خلاصے سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ کورونا کی تباہ کاریوں کو محدود کرنا ہے اور جلد دوبارہ اپنے قدموں پرکھڑے ہونا ہے تو اچھی خوراک ہی اس کا واحد حل ہے۔

کورونا کی جبری قید کے دنوں میں کوئی ڈرامہ ،سیزن یا فلم نہیں دیکھ پایا ۔کتاب کو بہترین دوست سمجھتا ہوں اور کبھی خود سے جدا نہیں کرپاتا لیکن ان دنوں کتاب بینی کا سلسلہ بھی منقطع رہا۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا جسے لوگ ہر مرض کی دوا سمجھتے ہیں ،اس کے لئے بھی وقت نہیں نکال سکا۔اس دوران طبیعت مزید بگڑ جانے کا اندیشہ تو مسلسل لاحق رہا مگر کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔کورونا کی اس قید میں بار بار سوچتا رہا کہ انسانی تاریخ میں آج تک کتنی ہی خطرناک وبائیں آئیںاور ان میں سے کوئی وبا جب حملہ آور ہوتی تھی تو یوں لگتا تھا جیسے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔14ویں صدی کے آخر میں یورپ پر طاعون قہر بن کر ٹوٹی تو ’’بلیک ڈیتھ‘‘کہلائی۔اس وبا نے یورپ کے60فیصد مکینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔15ویں صدی کے آخر میں چیچک نے امریکہ میں تباہی مچادی۔پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہسپانوی فلو تو جیسے کل کی بات ہے ۔دوران جنگ 4کروڑ لوگ مارے گئے مگر یہ وبا 10کروڑ انسانوں کو نگل گئی۔یہ عام موسمی نزلہ ،تپ دق، ملیریا بخار ،ہیضہ ، دست لگ جانا ،خسرہ،انفلوئنزا یا دیگر بیماریاں جنہیں ہم معمولی خیال کرتے ہیں ،یہ بھی کبھی کورونا کی طرح خطرناک وبائی امراض کی طرح نازل ہوئیں ۔لاکھوں انسانوں کی جانیں گئیں مگر اس کائنات کے اصل درویش،سادھو،بھگت اور صوفی ان بیماریوں کو اللہ کا عذاب قراردے کر ڈرانے یا پھر کسی دوسرے ملک کی سازش قرار دے کر بہکانے کے بجائے بیماری کا تریاق ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔ جب یہ سب وبائیں حملہ آور ہوئیں تو نقل و حمل کے ذرائع محدود تھے ،انسان بحری جہازوں اور ٹرینوں میں سفرکیا کرتے تھے مگر کورونا کی آمد کے وقت جدید ترین ذرائع دستیاب ہیں چنانچہ وائرس کا پھیلنا بہت آسان ہے ۔مگر اس کے باوجودکورونا کی تباہ کاریاں ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکیں کیونکہ سائنسی ترقی کے باعث انسان بہت مضبوط اور توانا ہوچکا ہے۔

کورونا کی قید میں لگاتار سوچتا رہا کہ اس دنیا میں ہمارا کردار کیا ہے؟کیا ہم میٹھا خربوزہ اور سرخ تربوزدریافت کرنے کے علاوہ کوئی کارآمد چیز بنانے پر خو دکو مائل کرسکے؟بتایا گیا کہ ہم نے روبوٹ سازی میں بے پناہ ترقی کی تھی مگر مشینی انداز میں بنائے گئے روبوٹ بھی مسلسل اشاروں پر ناچنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔چند برس گزرے ہیں ،ریاست کے کرتا دھرتامقتدر افراد نے ’’ایک مذہبی تنظیم‘‘کے نام سے بہت بڑی تعداد میں روبوٹ تیار کروائے تھے،سوفٹ ویئر اپڈ یٹ کی تمام کوششیںناکام ثابت ہوئیں تو اب انہیں اسکریپ قرار دے دیا گیا ہے ۔جلد انہیں کسی نئے نام اور پیکنگ کیساتھ دوبارہ لانچ کردیا جائے گا۔گویاہمارا طرہ امتیاز یہی ناقص کھلونے بنانا اور پھر ضرورت پڑنے پر انہیں اسکریپ کر دینا ہے۔باقی سب کام وہ سادھو ،فقیر اور درویش جانیں جنہیں آتم تپسیا پسند ہے ۔ہمیں تو بنانا،مٹانا ،پھر بنانا،پھر مٹانا اور بس یہی کچھ کرتے جانا پسند ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین