• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

بھولے ڈنگر کو میرا منہ سونگھتے ہوئے جب بدبو کے وہ بھبھوکے محسوس نہیں ہوتے جو اس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں، تو وہ پورے یقین سے کہتا ہے کہ میں نے تمہیں سحری سے بہت پہلے جگایا تھا تاکہ تم آرام سے سحری کر سکو، اس کے باوجود بے غیرت آدمی تم نے روزہ نہیں رکھا۔ میں نے یہاں لفظ ’’بےغیرت‘‘ صرف اس کی بے غیرتی ظاہر کرنے کیلئے درج کیا ہے جو روزہ رکھ کر اپنی زد میں آنے والے ہر مسلمان کو اپنی ’’نیکی‘‘ کی یقین دہانی کے لئے اپنے منہ کی بدبو لہر در لہر فرداً فرداً ہر مردِ مسلمان پر زہریلی گیس کی طرح چھوڑتا ہے اور اس کے ساتھ اسے تلقین بھی کرتا ہے کہ روزے کی برکات جہاں اور بہت سی ہیں، وہاں اللہ کے نیک بندوں کو روزہ دار کے منہ کی بو صندل کی خوشبو کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات ایک دفعہ اس نے مجھ سے بھی کہی تھی، جس پر میں نے جھنجھلا کر کہا تھا کہ میرے ڈنگر دوست تم صحیح کہتے ہو مگر یہ بات منہ کی بدبو کے بارے میں کہی جاتی ہے، گٹر کی بدبو کے بارے میں نہیں!

اب میں کیا کروں، بھولا جہاں ڈنگروں جیسی حرکات کرتا ہے وہاں اس میں بہت پیاری عادتیں بھی ہیں اور کئی دفعہ وہ ڈنگروں والی نہیں، نہایت عاقلانہ گفتگو بھی کرتا ہے چنانچہ اس کا ساتھ چھوڑا بھی نہیں جاتا، بس ماہِ رمضان میں اس سے دوری شرفِ انسانیت پر یقین رکھنے کے لئے ضروری ہو جاتی ہے۔ میں نے ابھی آپ کو اس کی سحری کے بعد کے اوقات کے حوالے سے رودادابیان کی ہے، افطاری کے لئے اس کے اپنے کچھ اصول ہیں جن پر وہ سختی سے قائم ہے۔ اس کے نزدیک افطاری اپنے گھر پر کرنا مکروہ ہے، جس کی تصدیق کے لئے وہ بہت سی دینی کتب چھان چکا ہے مگر ناکامی کے بعد اب اس کا کہنا ہے کہ گو کسی عالم دین نے اس کی تصدیق نہیں کی، لیکن بے شمار دینی کتب چھاننے کے نتیجے بلکہ ان کا ایک ایک لفظ بغور پڑھنے کے نتیجے میں اب وہ خود ایک عالم دین ہے اور یوں اسے اجتہاد کا حق حاصل ہو گیا ہے اور اجتہاد یہی ہے کہ افطاری اپنے گھر پر کرنا ایک مکروہ فعل ہے۔

سو روزے کے زیادہ سے زیادہ ثواب کے لئے وہ ہر بار کسی ایسی مسجد کا انتخاب کرتا ہے جہاں اہل ایمان نے افطاری کا نہایت عمدہ اور وافر مقدار میں اہتمام کیا ہوتا ہے۔ وہ وہاں پہنچ کر افطاری کا اعلان ختم ہونے سے قبل ہی میدانِ عمل میں اترتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشتے کے پشتے لگا دیتا ہے۔ پھر مسجد کی چٹائی پر لیٹ کر کچھ دیر سستاتا ہے اور جماعت کھڑی ہونے پر امام صاحب جب رکوع میں جاتے ہیں تو اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور رکوع میں چلا جاتا ہے۔ بھولا ڈنگر عام دنوں میں اکثر ہر معاملے سے بے خبر سا لگتا ہے مگر ماہِ رمضان میں سحری، افطاری اور اس کے بعد کھانے کے اوقات میں پوری طرح چوکس دکھائی دیتا ہے چنانچہ اسے علم ہوتا ہے کہ آج کس دوست نے اپنے گھر افطاری اور اس کے بعد کھانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ گھروں میں اس طرح کی محفلوں میں افطاری برائے نام ہوتی ہے، اس کی کسر عالی شان کھانوں کی صورت میں نکالی جاتی ہے چنانچہ وہ مسجد سے سیدھا اس دوست کے گھر پہنچتا ہے، بائی دی وے، لفظ ’’دوست‘‘ میں نے مروجہ نہیں غیر مروجہ معنوں میں لکھا ہے۔ بھولے کی لغت میں ایسے مواقع پر ہر وہ شخص اس کے دوستوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے جس نے کسی محفل میں اس کے سلام کا جواب دیا ہو۔ اسے دیکھتے ہی میزبان اور مہمانوں ہی کا نہیں، کھانوں کا رنگ بھی اڑ جاتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھولا ڈنگر جو ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھتا ہے اور کم از کم مغرب کی نماز بھی ادا کرتا ہے، کس قدر نیک مسلمان ہے۔ ماہِ رمضان میں اللہ کے فضل سے ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لوگ دن کے اکثر اوقات میں تلاوت اور وظائف کا ورد بھی کرتے ہیں، تراویح بھی ادا کرتے ہیں، زکوٰۃ اور صدقات بھی دیتے ہیں، ہر بری عادت سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، میرا ایک مرحوم دوست مے نوشی چاند کا اعلان ہوتے ہی عید کے چاند کا اعلان ہونے تک پوسٹ پون کر دیتا تھا، اسی طرح ہم جن لوگوں کو ماہِ رمضان میں ایک پکا اور سچا مسلمان تصور کرتے ہیں مگر اللہ جانے اس مہینے میں ہر چیز کی قیمت دوگنی کیوں ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بھی ہمارے ملک کو تباہی کے گڑھوں کی طرف دھکیلنے والے کون لوگ ہیں۔

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

تو اس کا سراغ آپ خود لگا لیں اور ان علماء سے ’’ملاقات‘‘ ضرور کریں جو بخشش کے لئے صرف عبادت کو ہی کافی قرار دیتے ہیں۔

باقی رہ گیا بے چارہ بھولا ڈنگر تو یہ ان بائیس کروڑ عوام میں سے ایک ندیدہ شخص ہے جس کے منہ سے رال ان عبادت گزاروں کی زندگیاں دیکھ کر بہتی رہی ہے۔

تازہ ترین