• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا نے افغانستان سے اپنی فوج نکالنے کے لیے نئی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ صدر جوبائیڈن نے قوم سے خطاب میں کہا کہ’’ امریکی فوج رواں برس نائن الیون سے قبل کابل کو خیر باد کہہ دے گی۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا اپنی سب سے بڑی جنگ ختم کرنے جا رہا ہے۔ 

واضح رہے، صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ دوحا میں جو امن معاہدہ کیا تھا، اُس کے مطابق امریکی فوج کو مئی 2021ء تک افغانستان چھوڑنا تھا، تاہم اب امریکی صدر کا کہنا ہے کہ وہ ستمبر میں کابل کو خدا حافظ کہیں گے۔ جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ فوجی انخلا کی تاریخ میں توسیع ناگزیر ہے، کیوں کہ مئی میں انخلا سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ 

شاید اُن کا اشارہ طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان جاری پُرتشدد کارروائیوں کی طرف تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اِن دنوں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ دوسری طرف، افغان طالبان نے امریکی فوجی انخلا کی تاریخ میں توسیع پر شدید ردّ ِعمل کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک امریکا، افغانستان سے نہیں جاتا، وہ اپنے مُلک کے مستقبل سے متعلق کسی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ 

اِس بیان کے ساتھ ہی اُنھوں نے رواں ماہ تُرکی میں ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ اگر باریک بینی سے دیکھا جائے، تو دوحا امن معاہدے میں تقریباً تمام بنیادی معاملات طے کیے جا چُکے ہیں اور ان اہداف کے حصول کے لیے دو طرح کے مذاکرات ہوئے۔ پہلے امریکا اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی، جس کا مقصد امریکی فوج کی واپسی کا وقت اور طریقۂ کار طے کرنے کے ساتھ قیامِ امن سے متعلق مسائل حل کرنا تھا۔ بعدازاں، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مستقبل کے سیاسی ڈھانچے سے متعلق مذاکرات ہوئے، جنھیں’’ انٹرا افغان ڈائیلاگ‘‘ کا نام دیا گیا۔ 

پاکستان نے ان دونوں طرح کے مذاکرات میں کلیدی سہولت کار کا کردار ادا کیا، کیوں کہ وہ خطّے میں امن کے قیام میں بہت زیادہ دِل چسپی رکھتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ خطّے کے کئی ممالک، خاص طور پر روس، چین اور بھارت اُس خلا کو پُر کرنے کے لیے کوشاں ہیں، جو امریکا کے انخلا سے پیدا ہوگا۔ ان ممالک کی دل چسپی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان کے مستقبل سے متعلق رواں ماہ تُرکی میں اجلاس کر رہے ہیں، حالاں کہ تُرکی، افغانستان سے ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔

صدر جوبائیڈن کا یہ کہنا بہت اہمیت کا حامل ہے کہ’’ اب وقت آگیا کہ امریکا اپنی طویل ترین جنگ کو خیرباد کہہ کر واپسی کا راستہ بنائے۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ امریکا اِس بات کے انتظار میں اپنے وسائل برباد نہیں کرسکتا کہ افغانستان میں آئیڈیل حالات پیدا ہوں، تب ہی انخلا ہو گا۔‘‘ اِس بیان کا تو یہی مطلب ہوا کہ وہ جو کرسکتا تھا، اُس نے کردیا، اب افغان اپنے معاملات خود دیکھیں۔ اُنھوں نے یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ وہ چوتھے امریکی صدر ہیں، جو افغان جنگ میں شریک ہیں۔ دو ری پبلکن اور دو ڈیموکریٹک صدور یہ جنگ لڑ چُکے ہیں۔ 

صدر جوبائیڈن نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ’’ روس، چین اور پاکستان اب علاقے کی مناسبت سے افغان مسئلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔‘‘ گویا اُنھوں نے دونوں بڑی طاقتوں کو خطّے میں راستہ دے دیا۔ تاہم، اِس موقعے پر بھی وہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کرنا نہ بھولے۔ اُنھوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اِس پر اپنے ردّ ِعمل میں کہا کہ’‘ پاکستان افغان امن عمل میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘‘ جوبائیڈن نے یہ بھی بتایا کہ اب 20 برس پہلے جیسے حالات نہیں رہے۔ اسامہ بن لادن اور مُلّا عُمر راستے سے ہٹ چُکے ہیں۔

اُنھوں نے واضح طور پر کہا کہ’’ امریکا سفارتی اور انسانی بنیادوں پر تو افغانستان کی مدد کرتا رہے گا، لیکن اس کا فوجی کردار مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔‘‘ افغان صدر اشرف غنی کا اپنے ردّ ِعمل میں کہنا تھا کہ’’ اُن کی حکومت مستقبل کے معاملات سے خود نمٹ لے گی۔‘‘ اگر دیکھا جائے، تو صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں اُنہی باتوں کا اعادہ کیا، جو ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحا معاہدے میں طے کی تھیں، بلکہ بہت سے نکات پر تو اُن کے دَور میں عمل بھی ہوچکا تھا۔ اِن دنوں افغانستان میں متحارب گروہوں کے درمیان فائر بندی کی سی صُورت ہے۔ 

طالبان نے معاہدے کے مطابق امریکی فوجیوں پر تو حملے بند کردیے ہیں، مگر افغان حکومت بدستور اُن کے حملوں کی زَد میں ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق، طالبان امریکا کو کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہتے، جس سے اُس کا انخلا تاخیر کا شکار ہو، کیوں کہ امریکی فوج کی واپسی میں تاخیر طالبان کے لیے کسی صُورت سود مند نہیں ہوگی۔شاید اب وہ بھی طویل جنگ لڑتے لڑتے تھک چُکے ہیں اور دوسری طرف، اُن کے حامی ممالک بھی اپنے اندرونی مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

خاص طور پر کورونا وبا نے اُن ممالک کے سب کَس بَل نکال دیے ہیں اور وہ اب کسی اور مُلک کے معاملات میں ٹانگ اَڑانے پر تیار نہیں۔ ماہرین اِس سلسلے میں پاکستانی آرمی چیف کی اُس تقریر کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہیں، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ پاکستان اب کسی بھی مُلک کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور وہ اپنے اندرونی حالات درست کرنے ہی پر توجّہ دے گا۔‘‘ طالبان بھی موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی صفیں درست کر رہے ہیں، کیوں کہ اگر وہ حکومت میں آتے ہیں، تو اُنھیں ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ نہ صرف انتظامی معاملات سمجھتے ہیں، بلکہ اُنھیں معاشی معاملات کا بھی ادراک ہے اور مُلک چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ 

گوریلا جنگ لڑنا ایک الگ بات ہے اور مُلک چلانا یک سَر دوسرا معاملہ اور وہ بھی افغانستان جیسا مُلک، جو کھنڈر بن چُکا ہے۔ درحقیقت، افغانستان کا معاملہ اب جنگی نہیں رہا، کیوں کہ اِس کھیل کے سب کھلاڑی جنگ سے تائب ہو چُکے ہیں۔ امریکا کی جانب سے قائم کردہ حکومتیں خواہ کتنی ہی کم زور اور بے بس کیوں نہ ہوں، مگر گزشتہ 20 برسوں میں اُنھوں نے مُلک کو ایک سیاسی اور انتظامی انفرا اسٹرکچر ضرور دیا ہے۔ اب افغانستان میں ظاہر شاہ طرز کی بادشاہت ہے اور نہ ہی مُلّا عُمر کی طالبان حکومت۔ موجودہ افغان حکومت نے تعلیم، معیشت، مواصلات اور دیگر شعبوں میں مختلف ممالک اور عالمی اداروں سے معاہدے کیے ہیں۔ 

بھارت ،چا بہار بندر گاہ سے کابل تک سڑک بنا رہا ہے اور افغانستان میں 2 ہزار ترقّیاتی منصوبوں پر کام کر رہا ہے، تو چِین اور روس بھی اپنے اپنے طور پر وہاں موجود ہیں۔ افغانستان میں اب اصل کھیل سرمائے کا ہوگا۔ اُنہیں فوجی سپورٹ کی بجائے سرمایہ کاری چاہیے تاکہ مُلک ترقّی کر سکے اور آیندہ اسی بنیاد پر دنیا سے تعلقات قائم ہوں گے۔ آج کا افغانستان ماضی سے بہت مختلف ہے۔ وہاں کے پڑھے لکھے نوجوان مختلف شعبوں میں خدمات سَر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہی نوجوان مُلک کا مستقبل ہیں۔ 

دنیا گزشتہ 20 برس سے ویت نام میں انقلاب اور گوریلا جنگ کو معاشی عمل میں ڈھلتے دیکھ رہی ہے۔ آج وہ جنوب مشرقی ایشیا ہی نہیں، دنیا بھر کی اُبھرتی معیشتوں میں نام پیدا کر رہا ہے۔ انقلاب اور جنگ اُس کا ماضی بن چُکا ہے۔ امریکا اور فرانس جو اُس کے جنگی حریف تھے، آج ترقّی کے پارٹنرز بن چُکے ہیں۔ ویت نام کی معیشت پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور وہ کاٹن برآمدات میں ہمیں پیچھے چھوڑ چُکا ہے۔ 

ہم آج تک ہوچی منہ کے افسانے سُناتے رہتے ہیں، جب کہ وہ اس سے بہت آگے بڑھ چُکے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ طالبان، امریکا کے جاتے ہی مُلک پر قبضہ کر لیں گے اور ایک بار پھر ماضی جیسی صُورت پیدا ہوجائے گی، لیکن شاید اب ایسا ممکن نہیں رہا، کیوں کہ دنیا طویل جنگوں کی متحمّل نہیں رہی۔

نیز، افغانستان کی سرحدوں پر موجود تین بڑے عالمی کھلاڑی بھی ایسا نہیں چاہیں گے، کیوں کہ وہ آپس میں اقتصادی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ چِین اور روس 20 ارب ڈالرز سے زاید کے تیل و گیس کا معاہدہ کر چُکے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان باہمی تجارت ایک سو ارب ڈالرز تک پہنچ چُکی ہے۔ ایران کم زور اقتصادی صُورتِ حال سے گزر رہا ہے، تو وہ بھی بڑی طاقتوں کو اپنے ہاں سرمایہ کاری کے لیے لانا چاہتا ہے۔ 

بلند آہنگ بیانات کی الگ بات ہے، لیکن اس کی تمام تر توجّہ اپنی اقتصادی کم زوری دُور کرنے پر مرکوز ہے اور اس کے لیے وہ عالمی نرخوں سے کم پر تیل کے معاہدے کر رہا ہے۔ اسی مقصد کے لیے بھارت سے چابہار بندر گاہ کی تعمیر، روس سے دو اقتصادی معاہدے اور چین سے 400 بلین ڈالرز کا25 سالہ معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت چینی فوجی بھی ایران میں تعیّنات ہوں گے۔ یوں کوئی بھی علاقائی طاقت طالبان کو ماضی کی طرح فری ہینڈ نہیں دینا چاہے گی۔

تاہم، افغان حکومت کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ امریکی انخلاء سے قبل کوئی ایسا معاہدہ کرلے، جس کے ذریعے طالبان کا فوجی قبضہ ممکن نہ رہے۔ غالباً تُرکی اجلاس کا مقصد بھی یہی ہے۔ طالبان کا رویّہ اِس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے اور وہ حکومت پر دباؤ بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ، ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان کسی معاہدے کا حصّہ بن سکتے ہیں، کیوں کہ اُن کی بھی یہی خواہش ہے کہ اُنہیں اب جنگ جُو گروپ کی بجائے سیاسی متبادل کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان دشمنی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں، لیکن دونوں کے درمیان زیادہ تر لڑائیاں خفیہ طریقوں ہی سے لڑی جاتی ہیں۔ اسرائیل، ایرانی مفادات پر حملوں کا عام طور پر اعتراف نہیں کرتا، تاہم اُس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو کسی صُورت جوہری طاقت نہیں بننے دے گا۔دوسری طرف، ایران کا اصرار ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا اور اسی لیے نیوکلیئر ڈیل میں شامل ہوا۔ 

گزشتہ ہفتے ایک ایرانی ایٹمی پلانٹ میں پُراسرار دھماکے ہوئے، جس سے بجلی کا نظام تباہ ہو گیا۔ ایران نے اس کارروائی کا الزام اسرائیل پر عاید کیا، جب کہ اسرائیل نے الزام مسترد کر دیا۔علاوہ ازیں، ایران نے اس حملے کا انتقام لینے کا بھی اعلان کیا۔ یہ اعلانات ایرانی صدر اور وزیرِ خارجہ کی طرف سے سامنے آئے، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک سائبر حملہ تھا۔ اسرائیل نے 2010ء میں امریکا کے ساتھ مل کر بھی ایک ایسا ہی سائبر حملہ کیا تھا، جس سے ایٹمی پلانٹ کے تمام سینٹری فیوجز تباہ ہو گئے تھے۔ اسے’’آپریشن اولمپک گیمز‘‘ کا کوڈ نام دیا گیا تھا۔ 

ان سائبر حملوں کے لیے ایک وائرس تیار کیا گیا، جسے’’ اٹکس نیٹ‘‘ کہا گیا۔ یہ وائرس انٹرنیٹ کے ذریعے نظام میں داخل ہو کر ایٹمی تنصیبات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ متاثرہ پلانٹ میں جدید سینٹری فیوجز نصب کیے جائیں گے، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس عمل میں آٹھ نو ماہ لگ سکتے ہیں۔ واضح رہے، نومبر 2020ء میں ایران کے نمایاں ایٹمی سائنس دان، فخری زادہ کو تہران کے قریب ایک پُر اسرار حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا اور اس کا الزام بھی اسرائیل ہی پر عاید کیا گیا تھا۔

تازہ ترین