• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ن لیگ نے ”معاشی دھماکہ“ کرنے کا وعدہ کیا تھا سو اس طرح پورا کیا ہے کہ اس کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ دھماکہ کے ”تابکاری اثرات“ بھی مسلسل جاری رہیں گے جس سے عوام کو لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقعہ ملے گا۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے ”حلف برداری“ کے اردگرد اسی کالم میں درخواست کی تھی کہ سب لوگ بنیادی ترین ضروریات زندگی مثلاً آٹا، دال، چاول، چینی، دودھ کی پتی وغیرہ کی قیمتیں نوٹ فرمالیں تاکہ چھ مہینے بعد کی قیمتوں سے ان کا موازنہ کر کے ماتم کرنے میں آسانی رہے، یہ علیحدہ بات کہ یہ والا ماتم ”جمہوری“ ہوگا جو آپ کو زخم زخم پر یاد دلائے گا کہ … ” جمہوریت بہترین انتقام ہے“ سو یہ فیصلہ میں نے نہیں آپ نے خود کرنا ہے کہ یہ تازہ ترین بجٹ شیر پر سوار ہو کر آیا ہے یا شیر بجٹ پر سوار ہو کر نمودار ہوا ہے۔
ایک بات جو میرے پلے نہیں پڑ رہی کہ بجٹ، بجٹ ہوتا ہے کوئی ”پریم پتر“ نہیں جو اتنی جلدی پیش کیا جاسکے۔ کابینہ کی تشکیل کو تو جمعہ جمعہ 8 دن بھی نہیں ہوئے تویہ بجٹ کہاں سے آگیا اور اگر وزیر خزانہ پہلے سے ہی اس کی تیاری میں جتے تھے تو انہیں اس بات کا یقین کس نے دلایا تھا کہ حکومت آپ ہی کی ہوگی۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ بجٹ عوام دشمن بیور و کریسی نے بنایا ہو اور وزیر خزانہ نے تھوڑی بہت سیاسی ڈینٹنگ پینٹنگ کر کے اسے سوٹ پہن کر پڑھ دیا ہو۔
پوری انتخابی مہم کے دوران بلکہ اس سے بھی بہت پہلے سے ن لیگ کی لیڈر شپ کا تکیہ کلام یہ تھا کہ … ”لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔“ میں مسلسل لکھ رہا ہوں کہ بسمہ اللہ کیجئے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے ہل جل تو شروع کریں، یہ اچھی خبر بھی متعدد بار سنا چکا ہوں کہ سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، یورپی یونین اور یونائیٹڈنیشن وغیرہ اس سلسلہ میں انتہائی مثبت پیش رفت کر چکے اور اب لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کچھ زیادہ مشکل کام نہیں لیکن مجال ہے کہ مجہول اور فضول قسم کے نعروں کے عادی کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔
حیرت ہے کہ حاجی تک نہیں چھوڑے گئے، پان چھالیہ تک کو نہیں بخشا گیا، شیر خوار بچوں کے دودھ پر بھی ہاتھ صاف کردیا گیا، شادی ہال، کلب، ریستوران تک گھسیٹ لیے گئے، زیرو ریٹنگ مصنوعات پر بھی چھوٹ واپس لے لی گئی، کاپی، قلم، کتاب پر بھی عذاب نازل، سلائی مشینوں سے ٹریکٹروں تک کو بھی ٹارگٹ کیا گیا، جی ایس ٹی میں بھی کمر توڑ ملٹی پل اضافہ، بجلی، چینی، تیل کی شامت علیحدہ … کہاں کہاں کاری ترین ضربیں نہیں لگیں لیکن … لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی طرف کوئی اشارہ تک بھی نہیں … ہاں البتہ نوجوان ووٹرز کیلئے لیپ ٹاپ، قرضے اور وظیفے کیونکہ اس سے ”سیاسی مائیلیج“ ملنے کا امکان ہے کہ ہمارے ہاں تو اقتصادی فیصلوں کے پیچھے بھی سیاسی ذہنیت کا ابلیسی کارخانہ چل رہا ہوتا ہے۔
اول تو چند ہفتوں کیا دنوں کے اندر اندر ہی یہ بجٹ دندل ڈال دے گا حالانکہ یہ بجٹ تو آنے والے منی بجٹوں کا دیباچہ ہے۔ بیچارے عوام غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے تو عادی ہیں ہی، اس بار انہیں ”غیر اعلانیہ بجٹ“ بلکہ بجٹوں کا بھی ایسا بھرپور تجربہ ہوگا کہ کچھ عش عش کر اٹھیں گے اور بہت سے ”غش غش“ کا شکار ہو کر اس طرح پھڑ پھڑائیں گے جیسے ذبح کی ہوئی مرغی، مرغی فروش قصائی کے ڈرم میں پھڑ پھڑاتی ہے۔
سمال انڈسٹری پر بھی بجلی بلوں کے ذریعہ 5 فیصد ٹیکس لگانا ایسا چونا لگائے گا کہ سارے ارمان فریزر میں جا لگیں گے، ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا جبکہ صارف مزید سستے ہوتے چلے جائیں گے، افراط زر ضربیں کھائے گا، عوام مزید ”تقسیم“ ہوتے چلے جائیں گے۔ چند ”ڈھکوسلے“ اور ”ڈرامے“ بھی پیش کیے گئے ہیں مثلاً زرعی قرضہ انکم ٹیکس ادائیگی سے مشروط ہوگا، ہائبرڈ گاڑیاں، شمسی توانائی پمپس وغیرہ سستے ہوں گے، وزراء کی صوابدیدی گرانٹ ختم، وزیراعظم آفس کے بجٹ میں 45 فیصد کمی اور نئی گاڑیاں نہیں خریدی جائیں گی وغیرہ غیرہ تو یہ سب کچھ گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہوگا۔
اصل بات یہ کہ زندگی سے عاجز عوام کو ریلیف ملے گا یا مزید تکلیف ان کا مقدر ہوگی تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ کسی بھی قسم کے ریلیف کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اور ان سب کو کانٹوں کی وہ فصل کاٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے جنہوں نے یہ فصل بڑی محبت و محنت سے کاشت کی ہے۔
اصول کی بات ہے کہ سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور جاگیر داروں کا کوئی بجٹ ”عوام فرینڈلی“ ہوسکتا ہی نہیں اور اس ملک کی اشرافیہ کا تو حال یہ ہے کہ ان میں سے ہر کوئی بیک وقت سرمایہ دار بھی ہے، صنعت کار بھی ہے اور جاگیردار بھی۔ جو صنعت کار تھے۔ احساس کمتری کا شکار تھے سو انہوں نے بڑے بڑے زرعی رقبے خرید لیے اور جھوٹے سچے جاگیردار بھی بن گئے اور جو جاگیردار تھے، انہوں نے بہتی گنگا میں ننگا اشنان کیا اور شوگر، سیمنٹ، ٹیکسٹائل کی صنعتیں لگا لیں۔
ان طبقات سے ریلیف کی توقع؟ یہ تو چیل کے گھونسلے میں ماس ڈھونڈنے والی بات ہے یا جیسے کوئی ریت ”نچوڑ“ کر آپ حیات نکالنا چاہے … ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ عوام کو مرنے نہیں دینگے کیونکہ عوام ہی نہ رہے تو ووٹ کس سے لیں گے؟ حکومت کن پر کرینگے؟ رستے روک کر ذلیل کسے کرینگے؟ ہوٹر کن کو سنائیں گے؟
جاگنے والو! جاگو مگر خاموش رہو اور ہوش سے کبھی کام نہ لو ۔
تازہ ترین