• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم ،پاکستان ،عمران خان نےگیارہ اپریل کو ’’احساس پروگرام‘‘ کے تحت ’’کوئی بھوکا نہ سوئے‘‘ منصوبے کوتوسیع دینےکی ورچوئل افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےاعلان کیا کہ پورے پاکستان میں کچن ٹرک کا جال بچھائیں گے۔ جب ریاست مستحق افراد کے گھر کھانا پہنچانے کی ذمے داری لے گی اور مستحق افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں گے تو اس کی برکت پاکستان پر نازل ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک مقصد کے تحت وجود میں آیا، تاہم اس راستے پر نہیں چل سکا۔ آج ہم پر زیادہ قرضے ہیں، مشکل حالات ہیں اور عوام پر خرچ کرنے کیلئے پیسہ کم ہے۔

لنگر خانے یا کارخانے؟

مذکورہ اعلان کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اور بعض حلقوںمیں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ کام حکومت کے کرنے کا ہےبھی یا نہیں۔اس سے قبل جب وزیرِ اعظم نے لنگر خانے اور بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہوم بنانے کا اعلان کیا تھا تب بھی اسی قسم کی بحث چھڑی تھی۔ لیکن ا ب چوں کہ رمضان المبارک ہمارے درمیان مہمان ہےاور اس ماہ میں مسلمان دل کھول کر کارِخیر میں خرچ کرتے ہیں،لہذا سوچا کہ اس معاملے کا جائزہ لینے کا یہ بہترین وقت ہےکہ اس طرح شاید ہم اور آپ کچھ سیکھ سکیں۔

بلاشبہ عوام کی فلاح و بہبودکے لیے سوچنا،اس ضمن میں حکمتِ عملی طے کرنااور اقدامات اٹھانا حکومت کی اوّلین ذمے داریوں میں شامل ہوتا ہے۔لیکن اس کے لیے ترجیحات کا تعیّن کرنا سب سے اہم ہوتا ہے۔اور ظاہر سی بات ہے کہ کسی فلاحی یا خیراتی ادارے اور ریاست یا حکومت کی ترجیحات اس ضمن میں یکساں نہیں ہوسکتیں۔

اس ضمن میں چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ اگر کسی فلاحی ادارے کو صدقے کی مد میں روزانہ سیکڑوں بکرے یا ان کی قیمت کے مساوی رقوم مل جاتی ہیں تو اس کے لیے غریبوں کے لیے کھانا تیار کرنا اس لیے زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ اسے مزید رقم صرف گھی، تیل اور مسالے کی خریداری پر خرچ کرنا پڑے گی،جو ممکن ہے کوئی اور مخیّر شخص فراہم کردے۔ لیکن اگر یہ ہی کام حکومت یا ریاست کرے تو اسے سب کچھ خریدنا پڑے گا۔

پھر یہ کہ حکومت کوملک کےاقتصادی حالات بہتر بناکر ملک اور قوم کی تقدیر بنانا ہوتی ہےجس کے لیے اسے میکرو اور مائیکرو ،دونوں جہات میں حکمت عملی طے کرنا اور اس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔اس کے برعکس فلاحی تنظیم یا ادارے کے پیشِ نظر ملک کی اقتصادی حالت بہتر کی ذمے داری نہیں ہوتی۔البتہ وہ اس کے لیے کسی حد تک مدد فراہم کرسکتی ہے،وہ بھی عوام کی مدد کرکے۔شاید اسی جانب امیرِ جماعت اسلامی، سراج الحق نے بھی یہ کہہ کر اشارہ کیا کہ مسائل کا حل لنگر خانےاورکچن ٹرک نہیں بلکہ نئے کارخانے اور روز گار ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ منہگائی خوف ناک شکل اختیار کر چکی،عام آدمی بُری طرح پس کررہ گیاہے ، قومیں غلامی سے نہیں خودکار نظام سے آگے بڑھتی ہیں . آئی ایم ایف کے ایجنڈے میں ملک کواقتصادی طور پر مزید کم زور کرنا پہلا ہدف ہے۔ حکم راںکچن ٹرک کا جال پھیلانے کی آڑ میں قوم پر غلامی کا جال ڈال رہے ہیں۔

اس بات کو مزید بہتر انداز میں یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت کو یہ منصوبے جاری رکھنے کے لیے سالنہ اربوں روپے کے فنڈز درکار ہوں گےاور چوں کہ ہم قرضوں کے جال میں جکڑی ہوئی معیشت ہیں اس لیے ان منصوبوں کے لیے بھی شاید قرض لینا پڑے یا ترقیاتی اخراجات میں سے کٹوتی کرکےاس مد میں رقم فراہم کرنا پڑے۔

ان دونوں صورتوں میں خالصتا اقتصادی زبان میں یہ’’ غیر ترقیاتی اخراجات‘‘ہوں گے۔حالاں کہ اس وقت ہمیں ملکی خزانے کا ایک ایک روپیہ محض ایسے منصوبوں پر خرچ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو مرگ وبار لائیں،یعنی جن سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں،ملک کے لوگوں کی فی کس آمدن بڑھے،قرضوں کا بوجھ اتارنے میں مدد ملے وغیرہ۔

اپنی فیّاضی پر نظر

بہ حیثیت قوم ہم کتنے فیّاض ہیں ،اس بارے میں 2015کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک میں سالانہ ساڑھے چھ کھرب روپے خیرات کیے جاتے ہیں۔ستّاسی فی صد مرد اورسڑسٹھ فی صد خواتین خیرات کرتی ہیں۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے تحقیقی شعبے، پاکستان پیس کولیکٹو (پی پی سی) کے زیر انتظام کیےگئے ملک گیر سروے کے مطابق مذکورہ رقم میں مساجد ، مدارس، غریب اور بے گھر افراد، ضرورت مند رشتے داروں ، دہشت گردی سے متاثرہ افراد اوراہسپتالوں کو دی جانے والی زکوۃ ٰ، صدقات ، چندے اور خیرات شامل ہیں۔

سروے کے مطابق اٹہتّر فی صد پاکستانی خیرات دیتے ہیں۔ان میں سے انہتّرفی صد کرنسی کی صورت میں خیرات کرتے ہیں۔چودہ فی صد افرادکا کہنا تھا کہ وہ اسکول کی تعلیم یا مقامی کلینک یا اسپتال کو خیرات دینا پسند کرتے ہیں۔سولہ فی صد افراد کا کہنا تھا کہ وہ نقد رقم یا اجناس کی صورت میں خیرات کرتے ہیں۔

رواں برس جنوری کے مہینے میں سامنے آنے والے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پاکستانی ہر سال پانچ سو چوّن ارب روپے خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔پاکستان میں ہر سال انفرادی سطح پر دی جانے والی خیرات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک کےاٹھانوے فی صد گھرانے جو رقم خیرات، صدقات اور عطیات کی صورت میں دیتے ہیں اس کی کل مالیت 554ارب روپے بنتی ہے۔

ایک تقریب میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی شہری ہر سال مختلف معاشرتی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر دل کھول کر خیرات کرتے ہیں۔مقررین نے پاکستان پیس کلیکٹیو،نیشنل کاؤنٹر ٹیرر ازم اتھارٹی اورسوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے تحت منعقدہ محفوظ خیراتی اداروں کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ہر سال اتنی بڑی رقم خیراتی اداروں کو دیتے ہیں، لیکن چھبّیس فی صد پاکستانی نہیں جانتے کہ ان کی دی ہوئی خیراتی رقم کہاں استعمال ہورہی ہے۔اس موقعے پر مقررین کا کہنا تھاکہ خیراتی رقم کے درست استعمال کے لیے قوانین پر عمل درآمد ضروری ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مطابق کھالوں کی صورت میں جو خیرات ہوتی ہے اس کی مالیت پانچ ارب روپے بنتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں قائم مزاروں اور درباروں کو ساڑھے چھ ارب روپے خیرات اور صدقات کی صورت میں ملتے ہیں۔

سخاوت کا یہ جذبہ پاکستانیوں کی رگ رگ میں بسا ہوا ہے۔ دنیا کے سینتالیس مسلم اکثریتی ممالک میں سے زیادہ تر میں زکٰوۃ دینا لازمی نہیں ہے۔ لیکن پاکستان ان چھ ممالک میں سے ایک ہے جہاں زکٰوۃ دینا لازمی ہے اور حکومت اسے جمع کرتی ہے۔

امریکی یونیورسٹی ،اسٹینفورڈ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اپنی مجموعی ملکی پیداوار کا ایک قابلِ ذکر حصہ خیرات میں دیتاہے۔دوسری جانب پاکستان سے کہیں زیادہ امیر ممالک ،جیسے برطانیا،اس مد میں( ایک اعشاریہ تین اور کینیڈا ایک اعشاریہ دو فی صد) نسبتاً کم خیرات دیتے ہیں۔پاکستان بھر میں کی گئی ایک اور تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ اٹھانوے فی صد پاکستانی یا تو چندہ اور خیرات دیتے ہیں یا فلاحی کاموں میں اپنا وقت صرف کرتےہیں، اور یہ تعداد ان لوگوں سے کہیں زیادہ ہے جن پر زکٰوۃ دینا لازم ہے۔

مربوط کوشش کی ضرورت کا احساس

یہ گزشتہ برس کی بائیس جنوری کی بات ہے۔ اس روز صدر مملکت،عارف علوی کو پاکستان بیت المال کے منیجنگ ڈائریکٹر عون عباس کی جانب سے ایک پریزنٹیشن دی گئی تھی۔اس تقریب کی صدارت کرتے ہوئے صدرِ پاکستان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مخیّر حضرات کی کوئی کمی نہیں،عوام کی فلاح و بہبودکے لیے ان کوششوں کو مربوط بنانا وقت کی ضرورت ہے۔

معاشرے کے پس ماندہ طبقے کی بہتری اور ملک بھر میں فلاحی خدمات میں اضافے کے لیے تمام این جی اوز کو اعتماد میں لے کر اس سمت میں مربوط کوششیں کرنی چاہییں۔ انہوں نے یتیموں اور معذوروں کی دیکھ بھال اور تحفظ،خواتین کو بااختیار بنانے بالخصوص سابق فاٹا میں کوششوں کو مزید فروغ دینےکی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے لوگوں کو غربت کے دائرے سے نکالنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنی چاہییں۔

ملکی ترقّی اورانسانی وسائل کی ترقّی میں تعلّق

اقوامِ متحدہ ہر برس اقوامِ عالم کے انسانی وسائل کی ترقّی کا اشاریہ جاری کرتا ہے۔ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (HDI) ممالک میں انسانی ترقّی کا میعار جانچنےکے لیےاقوام متحدہ کا طریقہ کارہے۔اس کےذریعے انسانوں کی متوقع زندگی، تعلیم ، ترقی، اور فی کس آمدن کے زمروں میں تمام ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں جاری کردہ اس اشاریے کے مطابق پاکستان 189 ملکوں میں 154 ویں نمبر پرہے۔واضح رہے کہ یہ اعشاریہ صحت، تعلیم اور معیار زندگی کی صورت حال کی بنیاد پر ترتیب دیاجاتاہے ۔لیکن گزشتہ برس ملک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور سیارہ زمین پر دباؤ ڈالنے والے مادی عوامل کو بھی شامل کیا گیاتھا۔

زیرِ تذکرہ رپورٹ2019ء میں ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔اس کے مطابق دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھارت 131 ویں نمبر پر ہے، بنگلا دیش 133، سری لنکا 72، مالدیپ 95، نیپال 142 اور بھوٹان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ناروے، آئرلینڈ، ہانگ کانگ، آئس لینڈ اور جرمنی اس درجہ بندی میں سر فہرست ہیں۔وسطی افریقا،جمہوریہ نائجر، چاڈ، جنوبی سوڈان اور برونڈی ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کی سب سے کم درجے پر موجود ہیں۔ امریکہ کو 17 ویں درجے پر رکھا گیا تھا۔

اگرچہ اس وقت ہم مشکل اقتصادی دور سے گزررہے ہیں،لیکن جب ہم بلند معاشی شرحِ نمو کے دور میں ہوتے تھے تب بھی انسانی ترقی کے اعتبار سے ہم نے کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلند شرحِ نمو نے ہمیں کچھ ادوار کے دوران زیادہ تنخواہیں اور غربت میں کچھ کمی تو دی ہے مگر اس سے ملک کے زیادہ تر لوگوں کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔

اس کے علاوہ عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ ہیومن کیپیٹل انڈیکس (ایچ سی آئی) میں بھی ہم کافی خراب کارکردگی رکھتے ہیں۔ پاکستان آخری پچّیس فی صد ملکوں میں آتا ہے۔بھارت دوسری چوتھائی (کوارٹائیل )میں اور سری لنکا تیسری چوتھائی میں آتا ہے۔ ایچ ڈی آئی کے مقابلے میں ایچ سی آئی تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہ ان عوامل پر کچھ زیادہ توجہ دیتا ہے جو انسانی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر جہاں ایچ ڈی آئی کی توجہ اسکولنگ کے متوقع سالوں پر ہوتی ہے وہاں ایچ سی آئی اس نکتے پر توجہ دیتی ہے کہ اس دوران کتنا کچھ سیکھا گیا،اور پھر سیکھنے کے اعتبار سے 'اسکولنگ کے سال شمار کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسکولنگ کے اختتام پر سیکھنے اور معلومات کے اعتبار سے انسان کے پاس کیا 'کیپیٹل یا صلاحیتیں ہوں گی۔

پاکستان کی ایچ ڈی آئی اور ایچ سی آئی رینکنگز سے ہمیںدوباتیں پتاچلتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ہم نے اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری نہیں کی ہے ۔یہ اس لیے بھی سچ ہے کہ ہمارے ہاںکئی دہائیوں تک صحت مند اقتصادی ترقی رہی ہے۔دوسری یہ کہ جب ہم نے اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کی، تب بھی یہ خراب رہی ہے۔ جب ہم نے تعلیم پر سرمایہ کاری کی تو تعلیم تک رسائی پر زیادہ توجہ دی ہے، مگر معیار کے بارے میں زیادہ فکر نہیں کی۔ 

پاکستان میں اسکول میں گزارے ہوئے سالوں اور اگر ان سالوں کو سیکھنے کے اعتبار سے دیکھیں تو ان میں بہت بڑا فرق موجود ہے اور یہ نتیجہ صرف ہیومن کیپیٹل انڈیکس میں سامنے نہیں آیا ہے بلکہ یہ ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ میں بھی موجود تھا۔

صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کم تر کام یابیاں پاکستان کے لیے پریشان کن ہونی چاہییں۔ اگر ہماری ترقی ہمارے شہریوں کی زندگیاں بہتر نہیں بنا رہی تو پھر ترقی یا اقتصادی نمو کے حق میں کیا دلیل دیں؟ اقتصادی ترقی حتمی منزل نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اس سے انسانوں کی زندگیاں بہتر بنتی ہیں۔انسانی ترقّی حتمی مقصد ہے۔

ہمارے پاس بہت بڑی اور بہت نوجوان آبادی ہے۔ اگر وہ صحت مند اور تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو ملک کس طرح بلند شرحِ ترقی برقرار رکھنے اور منظم رکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ دل چسپ بات یہ ہے کہ ویسے تو گھرانے کی سطح کا ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہم نے دو،تین دہائیوں میں غربت میں کمی کے اعتبار سے کافی ترقّی کی ہے، مگر غربت سے جڑی دیگر چیزوں میں بہتری نہیں آئی ہے۔ شیرخوار بچوں کی صحت اور اموات، ماؤں کی صحت اور اموات، بچوں میں نشوونما رک جانے کے اعداد و شمار بہت سست بہتری، ٹھہراؤ،اوربعض مقامات پر تنزّلی تک دکھاتے ہیں۔ اس پے چیدگی کی ایک وضاحت یہاں دیے گئے معیار کے زاویے سے مل سکتی ہے۔

تین دہائیوں سے ماضی کی تقریبا ہر حکومت نے کہا ہے کہ انسانی ترقی ان کی پہلی ترجیح ہے۔ مگر نتائج سے یہ لگتا تو نہیں کہ واقعی یہ ان کی ترجیح رہی ہے۔ کیا یہ حکومتیں اپنی ترجیحات کے حصول کے لیے پالیسیاں تیار اور ان کا نفاذ نہیں کرسکی تھیں؟ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے فی صد کے اعتبار سے صحت اور تعلیم پر ہم جو معمولی اخراجات کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اصل ترجیحات کیا ہیں۔ 

ہم کئی دہائیوں سے تعلیم پر اخراجات کو جی ڈی پی کےچارفی صد تک لانے کا 'وعدہ کر رہے ہیں مگر یہ اب بھی دو سے ڈھائی فی صد کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔اس کی ایک وضاحت تو اس ترقیاتی ماڈل سے ملتی ہے جو تمام حکومتیں ترقی کے بارے میں سوچنےکےلیے استعمال کرتی ہیں۔ اس ماڈل کی بنیاد اقتصادی ترقی پر ہے جس کا حساب جی ڈی پی کے بڑھنے سے لگایا جاتا ہے۔ اقتصادی ترقی مارکیٹس یا اوپر سے نیچے خودکار انداز میں آتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ خود ہی انسانی ترقی یقینی بنا دے گی۔ روزگار، نوکری، تعلیم اور صحت کے مقاصد،سماجی تحفِظ اور عدمِ تحفظ سے بچاؤ وغیرہ کو بنیادی مقصد تصور نہیں کیا جاتا۔

حکومت کی جانب سے ہر سال بجٹ سے عین پہلے جاری کیا جانے والا اقتصادی سروے ایک اہم سرکاری دستاویز ہوتی ہے جو اس کی کارکردگی اور معیشت کی حالت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اقتصادی سروے کا لے آؤٹ ہی بہت کچھ آشکار کردیتا ہے۔ پہلا باب ترقی اور سرمایہ کاری کے بارے میں ہوتا ہے۔ اگلے چند ابواب شعبوں کی ترقی اور کارکردگی کے بارے میںہوتے ہیں۔ صحت، تعلیم، غذائیت اور روزگار کا جائزہ باب نمبر 10، 11 اور 12 میں لیا جاتا ہے۔ حکومت کی 'پہلی ترجیحات ابتدائی صفحات کی مستحق نہیں؟ عدم مساوات پر تو باب بھی قائم نہیں کیاجاتا۔ 

حکومت کی کارکردگی کو واضح طور پر صرف اقتصادی شرحِ نمو کے اعتبار سے پرکھا جاتا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں ہے کہ انسانی ترقی حکومتوں کا بنیادی مقصد نہیں، بلکہ یہ تو ان کے اہم مقاصد میں بھی شامل نہیں ہے۔ یہاں حکومتیں اپنی کارکردگی کو انسانی ترقی کے اعتبار سے پرکھتی ہیں اور نہ ہی وہ انسانی ترقی کے اعتبار سے اپنے مقاصد کا تعین کرتی ہیں۔حالاں کہ اقتصادی ترقی کے جس ماڈل کے ذریعے وہ سوچتی ہیں، اس میں بھی انسانی ترقی حتمی مقصد نہیں ہے۔وہ اپنے پسندیدہ مقصد یعنی اقتصادی ترقی کے لیے انسانی ترقی کی بنیادی اہمیت کو بھی تسلیم نہیں کرتیں۔

جون 2018 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں77 فی صد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک کے 36 فی صد نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں اور 16 فی صد کا خیال ہے کہ مستقبل میں کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔15 فی صد کا ماننا ہے کہ معاملات آگے چل کر مزید خراب ہو جائیں گے۔

نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ (این ایچ ڈی آر) کے مطابق ملک میں نوجوانوں کی تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ آبادی کا64 فی صد30 سال سے کم عمرکے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 29 فی صد آبادی کی عمر 15 سے 29 سال کے درمیان ہے۔

این ایچ ڈی آر کے مطابق 15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فی صد ہے۔ اس کے ساتھ 40 لاکھ نوجوان ہر سال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان کو ہر سال دس لاکھ نئی نوکریاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 39 فی صد نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے حاصل ہیں۔ دو، دو فی صد مرد اور خواتین کو روزگار کی تلاش ہے مگر حیرت انگیز طور پر57فی صدبے روز گاروں کو نوکری کی تلاش ہی نہیں ہے۔ 77 فیصد نوجوان روزگار کی خاطر تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف جب حزبِ اختلاف میں تھی تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر انسانی ترقی کے بجائے اقتصادی نمو، سرمایہ کاری اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دینے کے لیے تنقید کرتی رہتی تھی۔اب وہ خود حکومت میںہے،لیکن ڈھائی برس گزرنے کے باوجودیہ نظر نہیں آتا کہ اس نے انسانی ترقی کو اپنی پہلی ترجیح بنالیا ہے۔

مہاتیر کی پیروی ،مگر کیسے؟

کچھ عرصہ پہلے تک وزیرِ اعظم،عمران خان،جدید ملائیشیا کےبانی مہاتیر محمد کا بہت ذکر کرتے تھے۔،لیکن اب ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔بلاشبہ مہاتیر نے ملائیشیا کی کایا کلپ کی،لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایسا کیسے ممکن ہوا۔1970 کی دہائی کے بعد سے ، ملائیشیا بنیادی طور پر خام قدرتی وسائل پر انحصار کرنے سے قدرتی گیس اور کم لاگت والےصارفین کے سامان ، خاص طور پر الیکٹرانکس اور بجلی کے سازوسامان سے ترقی یافتہ ممالک کا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔

مہاتیر محمد 1980 ء کی دہائی میں اقتدار میں آئے اور کم و بیش دو عشروں تک ملک کی مبادیات درست کرنے پر توجہ مرکوز رکھی اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالا۔ انہوں نے صنعت کو ترجیح اور برآمدات میں اضافے کو اپنا ہدف بنایا۔ دوم ،وہ جانتے تھے کہ انسانی وسائل کو ترقی دینے کے لیے تعلیم اور افرادی قوت کی مہارت پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ ان پالیسیوں کانتیجہ یہ ہے کہ آج ملائیشیا میں چورانوے فی صد شرح خواندگی ہے ۔

وہ طویل عرصے بعد2020 میںایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ملائیشیا کو درپیش نو چیلنجز کی شناخت کرکے2020 وژن پیش کیا ۔ان کا کہنا تھاکہ اگر ملائیشیا ترقی کرنا چاہتا ہےتو ان خطوط پر کام کرنا ہوگا۔ پہلا چیلنج متحد ملائیشیا کا قیام ہے ۔ 

دوسرا چیلنج افراد کو ترقی یافتہ ‘ لبرل‘ پر اعتماد اور جدید سوچ رکھنے اور اپنی قوم پر فخر کرنے والے انسانوں میں ڈھالنا ہے ۔ تیسرا، ایک مستحکم اور ترقی پسند جمہوری معاشرے کا قیام ہے،جو ترقی پذیر اقوام کے لیے ایک رول ماڈل ہو۔ چوتھا،بااخلاق اور صاحب ِکردار معاشرے کا قیام ہے ۔

پانچواں چیلنج ایک لبرل اور روادار معاشرے کا قیام ہے،جس میں تمام افراد اپنے اپنے عقائد پر آزادی سے عمل پیرا ہوتے ہوئے ملک اور قوم کے ساتھ وفادار رہ سکیں۔ چھٹا‘ ایک سائنسی اور ترقی پسند معاشرے کا قیام ہے‘ جو نا صرف ٹیکنالوجی استعمال کرے‘ بلکہ اسے تخلیق بھی کرے ۔ ساتواں چیلنج ایک ہم درد معاشرے اور کلچر کا قیام ہے ۔ آٹھواں چیلنج مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام ہے،جہاں مالیاتی وسائل کی یک ساں تقسیم یقینی بنائی جائے ۔ نواں اور آخری چیلنج ایک خوش حال معاشرے کاقیام ہےجو مسابقتی، متحرک اور مستحکم معیشت رکھتا ہو۔

جب مہاتیر محمد پہلی بار بر سراقتدار آئے تو انہوں نے ملکی بجٹ کا تیس فی صد تعلیم کے لیے وقف کر دیا تھا۔پھر 2020میںمہاتیرکی حکومت نےبجٹ پیش کیا جس میں تعلیم کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی تھی۔اس موقعے پر ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہاتھا کہ60ارب رنگیٹ(2040ارب روپے) کا بجٹ تعلیم کے لیےمخصوص کیا جا رہا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کو پہلے سے زیادہ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

مہاتیر محمد نے اقتصادی استحکام اور تعلیم کو ملائیشیا کی ترقّی کا ستون قرار دیا، کیوں کہ وہ یہ بات اچّھی طرح جانتے تھے کہ تعلیم کسی بھی مُلک کی معیشت کو ترقّی دینے کے لیے ریڑھ کی ہڈّی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم بننے سے قبل جب وہ وزیرِ تعلیم تھے، تو انہوں نے تعلیم کو اوّلین ترجیح بنانے کے لیے راہ ہم وار کی اور اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھی اسی پالیسی پر گام زن رہے۔ جب مہاتیر نے ملایا باشندوں کی پس ماندگی ختم کرنے کے لیے تعلیم کو بنیاد بنایا، تو انہیں اندازہ ہوا کہ تعلیم کی عام شہری تک رسائی میں انگریزی زبان ایک بڑی رُکاوٹ ہے اور اسے دُور کرنے کے لیے انہوں نے ملایا زبان کو ذریعۂ تعلیم قرار دیا۔

اُن کے دَور میں مُلک بَھرمیں اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز کا جال بچھایا گیا۔اس کے ساتھ تعلیمی معیار کو بین الاقوامی معیارِ سے ہم آہنگ کرنے پر بھی خصوصی توجّہ دی گئی۔ معاشرے میں توازن پیدا کرنے اور مُلکی ترقّی میں خواتین کا کردار بڑھانے کے لیے مہاتیر محمد نے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجّہ دی، جس کی وجہ سے رواں صدی کے آغاز تک ملائیشین جامعات میں نصف تعداد طالبات کی تھی۔ 

خیال رہے کہ آج بھی ملائیشیا میں ہائی اسکول کی سطح تک مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے اوریونی ورسٹی کےنوّے فی صداخراجات حکومت اداکرتی ہے۔جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے انہوں نے تربیت یافتہ پیشہ وَر افراد کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کی، جس نے نہایت کم عرصے میں ملائیشیا کو ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں شامل کر دیا۔

مہاتیر محمد کے برسرِ اقتدار آنے سے قبل ملائیشیا کی معیشت کا انحصار خام ربر اور ٹن کی برآمدات پر تھا اور اسے زیادہ سے زیادہ ترقّی پذیر معیشت قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن جب 2003ء میں مہاتیر محمد ریٹائر ہوئے، تو ملائیشیا کی سالانہ فی کس آمدنی 4036ڈالرز ہو چُکی تھی۔پھر 2018میںیہ 9766ڈالرزتک پہنچ چُکی تھی۔

تازہ ترین