• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے شدید ذہنی دبائو اور غیریقینی کیفیت کے شکار پاکستانی عوام کے لئے منگل کی رات سامنے آنے والی یہ اطلاع بڑی حد تک اطمینان بخش ثابت ہوئی کہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے حکومت سے مذاکرات کی کامیابی کے بعد لاہور میں مرکزی دھرنے کے مقام سمیت ملک بھر میں احتجاج ختم کردیا ہے۔ اس اعلان سے قبل قومی اسمبلی کے خصوصی طور پر طلب کردہ اجلاس میں تحریک انصاف کے رکنِ پارلیمینٹ امجد علی خاں نے فرانسیسی میگزین میں گستاخانہ خاکے شائع کئے جانے کے خلاف قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر ایوان میں بحث کی جائے، تمام یورپی ممالک کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے اور مسئلے کو بین الاقوامی فورموں پر اٹھایا جائے۔ ایسے سنگین حالات میں، کہ ایک طرف سڑکوں سمیت مختلف مقامات پر تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے جاری تھے اور پچھلے چند دنوں کے دوران پولیس اور مظاہرین کی جھڑپوں سمیت کئی افسوسناک واقعات پیش آچکے تھے دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی حکومتی رویے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ کر چکی تھی، فوری طور پر کسی قرارداد کی منظوری ممکن نہیں تھی۔ دانش و حکمت کا تقاضا بھی یہ تھا کہ گستاخانہ خاکوں اور طرزعمل پر پاکستانی عوام کے جذبات سے دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کی پیچیدگیوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے اور ایسا متن تیار کیا جائے جو قومی مفادات اور حکمت عملیوں سے مطابقت رکھتے ہوئے معاملے کی صورت حال درست انداز میں عالمی برادری کے سامنے پیش کر سکے۔ چنانچہ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا اسعد محمود اور مسلم لیگی رہنما احسن اقبال کی تجویز اور تحریک انصاف کے وزیر اسد عمر کی تائید کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسپیکر اسد قیصر نے متفقہ مسودہ لائے جانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ 23؍اپریل تک موخر کردیا۔ اس باب میں کوئی دو آرا نہیں کہ توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اراکین اور گیلریوں میں موجود افراد کے جذبات یکساں ہیں اور ملک کے تمام شہری، جن میں اقلیتی برادریوں کے ارکان بھی شامل ہیں، یہ خواہش رکھتے ہیں کہ توہینِ رسالتﷺ کے مرتکبین کے خلاف اسی طرح عالمی سطح پر اقدامات بروئے کار لائے جائیں جس طرح ہولو کاسٹ کے معاملے پر منفی انداز فکر کے اظہار کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ منگل ہی کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی بریفنگ میں واضح کردیا گیا کہ حکومت کا ٹی پی ایل سے جو معاہدہ ہوا تھا وہ مکمل ہوگیا ہے، قومی اسمبلی میں بحث کے دوران قرارداد میں اپوزیشن کی ترمیمات قانونی نظام کا حصہ ہیں اور اسی کے مطابق معاملات آگے بڑھیں گے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کا مینڈیٹ آئین اور قانون کے تابع ہے ہمارے پاس حق نہیں کہ ہم تحریک لبیک پر لگائی گئی پابندی واپس لے لیں، ٹی پی ایل کے پاس اپیل کا حق ہے، قانونی طریقہ موجود ہے۔ اسے اختیار کیا جاسکتا ہے‘‘۔ جیسا کہ منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شکایتی انداز میں متوجہ کیا گیا، اپوزیشن سے رابطے اور مشاورت کی اہمیت و ضرورت بہرطور ملحوظ رکھی جانی چاہئے۔ جمہوری نظام میں اپوزیشن کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہے جو غلطیوں کی نشاندہی اور تجاویز کی صورت میں حکومت کو مدد دینے کی پابند ہے۔ اپوزیشن کے اس کردار کو کسی جانب سے بھی جذباتی بیانات یا سرد مہری کی صورت میں پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہئے۔

تازہ ترین