ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی وہی پرانے طریقے اختیار کیے ہیں ، جن سے نہ پہلے کبھی عوام کو ریلیف ملا ہے اور نہ ہی اس بار مل رہا ہے، الٹا اربوں روپے سبسڈی کی مد میں ادھر ادھر ہو جاتے ہیں اور عوام اشیائے ضروریہ کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر انہیں طویل قطاروں میں روزے کے ساتھ بھوکے پیاسے کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے ، اس بار بھی رمضان بازار لگائے گئے ہیں اور یوٹیلیٹی سٹورز کو بھی 6ارب روپے کا پیکج دیا گیا ہے۔
یہ دونوں تجربات ماضی میں بھی ناکام رہے اور اب بھی ناکام نظر آتے ہیں ،سب سے بڑا معاملہ چینی کی نایابی کا ہے اور اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ، ایک طرف کوروناکی وبا جان لیوا شکل اختیار کر رہی ہے اور حکومت کی ایس او پیز کے لیے دہائیاں سنائی دے رہی ہیں، مگر دوسری طرف خود حکومت نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ ہزاروں لوگ چینی کی تلاش میں رمضان بازاروں اور یوٹیلیٹی سٹورز کے سامنے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں ،جہاں نہ فاصلے کا کوئی خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی کوئی ماسک پہننے کی زحمت گوارا کرتا ہے، ایسے حالات میں اگر کورونا کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے تو اس میں قصور کس کا ہے؟ غربت کا ؟ بھوکا کا یا حکومت کی بے تدبیری اور نااہلی کا ؟جب سے شوگر سکینڈل سامنے آیا ہے۔
حکومت چینی کو عام آدمی کے لئے فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ،کہنے کو وزیراعظم اور وزراءبڑے دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے چینی مافیا کو لگام ڈال دی ہے اور ان کی اربوں روپے کی لوٹ مار کا راستہ روک دیا ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اس کا عام آدمی کو فائدہ کیا ہوا ہے، وہ تو پہلے سے بھی زیادہ اذیت کا شکار ہو چکا ہے، یا تو اسے مہنگے داموں چینی خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے یا پھر طویل قطاروں میں کھڑے ہوکر گرمی اور اور روزے کے ساتھ ساتھ دو کلو چینی کے حصول کے لیے گھنٹوں ضائع کرنا پڑتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں چینی ضرورت سے زیادہ مقدار میں موجود ہے ، شوگر ملیں اپنے اعداد وشمار جاری کرکے یہ باور کرا رہی ہیں کہ چینی کا سٹاک ضروریات کے مطابق دستیاب ہے ،مگر اس کے باوجود مارکیٹ میں چینی نایاب ہے ، اس کی وجہ وہ ڈیڈ لاک ہے جو حکومت وقت اور شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان عرصہ سے چلا آ رہا ہے، اب یہ معاملہ انتظامی سے زیادہ سیاسی ہوگیا ہے، کیونکہ وزیراعظم عمران خان پچھلے چند دنوں میں کئی بار اپنی تقاریر میں شوگر مافیا کا نام لے کر تنقید کرچکے ہیں، ان کا اشارہ غالباً جہانگیرترین کی طرف ہوتا ہے ،کیونکہ وہی اس وقت وزیراعظم پر مختلف حامی اراکین اسمبلی کے ذریعے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
جبکہ شوگر ملز ایسوسی ایشن ایک سے زائد بار حکومت کو یہ پیشکش کر چکی ہے کہ وہ چینی فراہم کرنے کے لئے تیار ہے ،صرف اسے وزیراعظم سے ملاقات کا موقع دیا جائے، تاکہ اس کے جو تحفظات ہیں انہیں ختم کرایا جا سکے، ایک اور بڑا مسئلہ ہے اس قانون کا بھی ہے، جو چینی ڈیلرز کی رجسٹریشن کے لئے بنا دیا گیا ہے، اب کسی شوگر مل سے کوئی ایسا ڈیلر چینی نہیں اٹھا سکتا ، جو متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے پاس رجسٹرڈ نہ ہو ، یہ ایسی قدغن ہے ، جس نے چینی کے ڈیلرز کو خوف زدہ کر دیا ہے اور وہ چینی اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں،یوں مارکیٹ میں چینی کا ایک بحران پیدا ہوگیا ہے اور چینی صرف رمضان بازار وں، یو ٹیلیٹی سٹور ز پر دستیاب ہے، ظاہر ہےکہ ان کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ عوام کی ضروریات کو پورا کر سکیں ،یوں چینی کا سکینڈلٍ بڑھتے بڑھتے اب عوام کےلیے ایک ایسا عذاب بن گیا ہے،جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی-
چھٹکارے کی صورت تو جہانگیر ترین کو بھی نظر نہیں آ رہی، اگرچہ جنوبی پنجاب کے بہت سے ارکان اسمبلی نے انہیں حمایت کا یقین دلایا ہے اوریہ اعلانیہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر اس کے باوجودجہانگیر ترین پر بننے والے کیسوں کی مختصر تاریخیں بھی پڑ رہی ہیں اور ان کے خلاف تفتیش بھی جاری ہے اب معاملہ یہاں تک آ گیا ہے کہ 30کے قریب ارکان اسمبلی واضح اعلان کرچکے ہیں کہ اگر جہانگیر ترین کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ ختم نہ ہوا تو وہ اسمبلیوں سے مستعفی بھی ہو سکتے ہیں، ادھر وزیراعظم نے بھی اس سلسلہ میں ایک کمیٹی بنا دی ہے جوجہانگیر خان ترین اور ان کے ساتھیوں سے مذاکرات کرے گی۔ یہاں جنوبی پنجاب میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیںکہ آخر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس سارے عمل سے لاتعلقی کا اظہار کیوں کر رہے ہیں اور کیوں وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء، اراکین اسمبلی سے رابطہ نہیں کر رہے ۔
ایک زمانہ میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی اس خطہ میں میں طاقت کا ایک توازن رکھتے تھے، جتنا اثرورسوخ جہانگیر ترین کا تھا ،اتناہی شاہ محمودقریشی کو حاصل تھا،،مگراس وقت صرف جہانگیرترین اس علاقہ کی کمان کررہے ہیں اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے ایسی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی کہ وہ جہانگیرترین کے ساتھ جانے والے ارکان اسمبلی کو روکنے کی کوشش کریں، یہاں کے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی جان بوجھ کر اس معاملہ سے دور ہیںاور یہ چاہتے ہیں کہ حالات اس حد تک خراب ہو جائیں کہ وزیراعظم عمران خان خود انہیں اس میں کردار ادا کرنے کے لیے کہیں ،بعض ان کے قریبی دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی آج بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ مل جائے۔
اس سارے کھیل میں وہ یہ امکان بھی تلاش کر رہے ہیں کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ وزیر اعظم انہیں پنجاب میں تبدیلی کے لیے اپنا امیدوار بنا دیں،ادھر یہ بھی کہا جارہا کہ جہانگیر ترین کے معاملہ میں لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر وزیر عبدالعلیم خان بھی خاموش کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ اگر عثمان بزدار کی تبدیلی کا کوئی اشارہ ملتا ہے تو ان کے نام قرعہ فال نکل سکتا ہے۔
کالعدم مذہبی تنظیم کے ادھراحتجاج کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی راستے بند ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تین روز تک انتظامیہ یہ عملاً مفلوج رہی اور حکومت کی طرف سے کوئی ایسی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی کہ جو عوام کے ساتھ ساتھ ہونے والے اس اذیت ناک سلوک کو ختم کرنے کے لیے بروئے کار لائی گئی ہو۔