• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہم اور ہمارے پیارے سیاست دان و لیڈران اپنی زیب داستان میں رنگ بھرنے کیلئے دوسروں کو تو موروثی سیاستدان ہونے کا طعنہ دیتے ہیں مگر خود الیکٹ ایبلز کو سر کا تاج بنائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ الیکٹ ایبلز کی ضرورت اور اہمیت موروثی سیاست کی آبیاری نہیں تو کیا ہے؟ پی ٹی آئی کے پاس جب 2018 کے انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب محاذ کا لشکر سج دھج کر شمولیت کیلئے آیا تو ہم نے کہہ دیا تھا، وہ جو کہتے ہیں تبدیلی آگئی وہ اس لشکر کی داستان اور بیان پر کان دھر لیں بات سمجھ میں آجائے گی۔ اور آج ہم کہہ سکتے ہیں بڑی دیر کی مہرباں سمجھتے سمجھتے۔

وہ جو ہمارے بیشتر پیارے دوست فرماتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو تنقید کا نشانہ اس لئے نہ بنائیں کہ، یہ تو پہلی دفعہ اقتدار میں آئے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اور نون لیگ تو پرانے ہیں۔ ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر علوی ضرور نئے ہیں کہ جنہیں لایا گیا مگر ان کے الیکٹ ایبلز اور وزراء کی شانِ اقدس دیکھ لیجئے، قلعی کھل جائے گی۔ شیخ رشید آپ کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ وزارتیں انجوائے کرچکے ہیں۔ تبدیلی ان میں آئی نہ وہ لاسکے۔ خٹک صاحب، عمر ایوب، خسرو بختیار، شاہ محمود قریشی، سرور خان، فہمیدہ مرزا سمیت کتنے ہیں جو کل جو جو بوتے رہیں وہ آج پچھلے کل کا کاٹیں گے یا تبدیلی لائیں گے؟ اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی الیکٹ ایبلز کی دلدادہ نہیں۔ یقیناً ہیں۔اگر الیکٹ ایبلز خواہاں نہ ہوتیں تو اتنی عظیم پارٹیاں پولیٹیکل انسٹیٹیوشنز نہ بن گئی ہوتیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد یونینسٹ کے الیکٹ ایبلز کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ یہی نہیں سماجی و اقتصادی اثرات اور محرکات نے کالونیل دور میں بھی الیکٹ ایبلز کو مضبوط کیا۔ کالے گورے اور مذہبی عناصر نے امریکہ میں آج بھی پنجے گاڑے ہوئے ہیں ماضی قریب میں اوباما کا منتخب ہونا بہرحال انوکھا سچ تھا جس کی مثال دینی پڑتی ہے۔ باقی نشانیاں تو ہیں اہل نظر کیلئے۔

عمرکوٹ کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے تھری لوگوں سے ملنے کے بعد، اور اس سے ایک سال قبل لاڑکانہ، خیر پور اور سکھر میں گھومنے پھرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ کوئی کتنا بڑا پیر و مرشد یا رئیس اور وڈیرا ہو محض الیکٹ ایبل ہونے کی چمک دمک سے عام آدمی کی آنکھوں کو خیرہ کرنا اب سندھ میں ممکن نہیں رہا۔ جب پسنی،گوادر اور نواحی علاقوں کا دورہ کیا تو بھی بہت کچھ محسوس کیا، آزادکشمیر سیاست اور کے پی کے پر بھی براہ راست غور کرنے اور لوگوں سے ملنے سے بےشمار سیاسی سوال جنم لیتے ہیں مگر معصوم اور مجبور لوگ آنکھوں میں پیام لئے اور امید کی شمعیں فروزاں رکھنے کی پاداش میں کبھی پی پی اورنون لیگ تو کبھی پی ٹی آئی کو لبیک کہے بغیر زندگی گزاریں بھی تو کیسے؟ بہرحال کے پی کے خان و خٹک ہوں یا پنجاب کے چوہدری و عباسی و مخدوم یہ بھی کسی الیکٹ ایبل خماری میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یا اپنے کسی پولیٹیکل ایجنٹ یا سیاسی حامی کے سندیسے پر اپنے سیاسی قلعے نہیں بچا سکتے۔ سو بلوچستان کے کچھ حلقوں کے بلوچ اور پختون کے کہیں زعم اور کہیں بھرم ہنوز قائم ہیں ورنہ روایتی الیکٹ ایبلز کی حالت وہاں بھی پتلی ہے بشرطیکہ مقتدر لاٹری نہ نکال دیں۔ رہی بات آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی تو وہاں پر الیکٹ ایبل فیکٹر کے ساتھ ساتھ اوپر سے ’’دوستوں‘‘ کے سماں اور ہَوا باندھنے کے عمل کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ مگر سوال یہ بھی جنم لیتا ہے جو سیاست اور سیاستدانوں کو انگلیوں پر نچاتے ہیں وہ چاہتے یا چاہیں تو اصلاحات بھی تو لاسکتے تھے؟ آمریت کے جو آفتاب ضیائی تالیف کا سبب بننے کا لالچ دیتے رہے وہ بھی تو الیکٹ ایبلز کو تقویت بخشتے رہے۔ ایسے میں عوام کو کیا ملا؟ پھر بھی دیکھا جائے تو اصلاحات تو ذوالفقار علی بھٹو ہی نے کیں جو تاحال قابل ذکر ہیں۔ بھارت تو کیا دیکھتے ہی دیکھتے بنگلا دیش نے اصلاحات کو ہم سے کہیں زیادہ پروان چڑھا لیا۔ ملائشیا اور چائنہ ہم عمر ہیں مگر ترقی میں کہیں زیادہ۔ جاگیرداری کو بھارت کی طرح ہاتھ ڈالا ہوتا تو ہم سیاسی و جمہوری کلچر کو نسبتاً زیادہ مضبوط کرپاتے۔

سب باتیں اپنی جگہ ایک تبدیلی اس صورت میں تو بہرحال آئی کہ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی باہمی مناپلی کو تحریک انصاف کےدعوئوںاور نعروں سے کاری ضرب ضرور لگی مگر تحریک انصاف خود بھی کسوٹی پر آکر بےذائقہ ہوگئی۔اسے کسی حد تک ارتقائی عمل سمجھا یا ریفارمز کی طرف بڑھنا گردانا جاسکتا ہے۔ مانا کہ ہم ناروے ، ڈنمارک یا آسٹریلیا اور سنگاپور تو بننے سے رہے مگر ہم اقتصادی طور سے ملائشیا ماڈل تو بن ہی سکتے ہیں، نسلی تعصب، مذہبی تفریق اور تہذیبی تضادات ملائشیا میں بھی تو ہیں۔ یہ درست کہ پاکستان میں کلچرل ورائٹی اور مذہبی اقسام، پھر پہاڑوں سے صحراؤں تک کے بہت فرق موجود ہیں، ایران کے پڑوس کے بلوچستان پر مختلف اثرات، افغانستان کے کے پی پر الگ معاملات، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے الگ بھارتی چیلنجز کا سامنا۔ روس ، چائنہ اور امریکہ کشمکش کے اپنے اثرات مگر ان سب چیزوں کے باوجود سی پیک آصف زرداری کی ابتدا اور نواز شریف انتہا سے خطے کیلئے بالعموم اور پاکستان کیلئے بالخصوص گیم چینجر بن چکا ہے، گلوبل ویلیج فلسفہ فروغ پانے کے درپے ہے اب جمہوریت اگر اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اقتصادی و سماجی بناؤ والوں کو ووٹ ملے گا محض الیکٹ ایبلز کو نہیں۔

تبدیلی کا خواب بھی خاصا ’’شرمندہ‘‘ تعبیر ہوچکا۔ کرپشن کا نیبی و سیاسی ڈھول بھی کافی پیٹا جاچکا۔ یہ بھی ثابت ہو چکا کہ مالی کرپشن اور سیاسی کرپشن ایک ہی طرح کے زہر ہیں جو اقتصادی بیماری کو جنم دے کر سماجی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ بہرحال تحقیق یہ کہتی ہے سندھ میں پیپلزپارٹی کی بقا اب ان کے ترقیاتی کاموں کے سبب ہے، سندھ کارڈ کا رنگ پھیکا پڑ چکا۔ کراچی کے سحر بھی کافی بدل چکے۔ پنجاب کل بھی نون لیگ کا گرویدہ تھا اور آج بھی، یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ و سیالکوٹ، گجرات و راولپنڈی، لاہور و قصور ایسے ہی شیخوپورہ و فیصل آباد الیکٹ ایبلز کے نہیں بناؤ کے ہوئے۔ جنوبی پنجاب میں نظریاتی پیپلزپارٹی اور نون لیگی ترقیات کا انتخابی رنگ بڑھ چکا بشرطیکہ ’’بڑوں‘‘ کی نظر نہ لگے۔ کے پی، ہزارہ اور کوہستان ڈویژن بھی ترقیاتی و اصلاحات کی طرف لپکتے ہیں۔ رہی بات تحریک لبیک پاکستان کے رنگ کی تو وہ بھی ایک اصولی ری ایکشن تھا جو آئین کی دفعہ 10-اے کے فئیر ٹرائیل اور ڈِیو پراسِس سے انحراف کی بدولت ہوا۔ مختصر یہ کہ ملک میں تقریباً 70 تا 80 فیصد اقتصادیات و ترقیات کا انتخابی راج ہوگا الیکٹ ایبلز کا نہیں، کاش اس بات کو بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف بخوبی سمجھ لیں۔ ہمارے ’’دوست‘‘ جان لیں کہ نتیجہ خیز سماجی و سیاسی بناؤ ہی درکار ہے اور کرپشن کے خلاف ویکسین چاہئے موروثیت یا کرپشن کے نام پر کلنک کے ٹیکے لگانا قطعی کارآمد نہیں! ہاں مل مافیا یا جابر جاگیردار کے بجائے بناؤ کا پیکر الیکٹ ایبل یا بناؤ کی لیگیسی والا اُبھر آئے تو مضائقہ ہی کیا ہے؟

تازہ ترین