• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’اعتکاف‘‘ رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

اعتکاف رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت ہے۔ 2ہجری میں روزے کی فرضیت کے بعد سے وصال تک نبی اکرمﷺ نے ہمیشہ رمضان میں اعتکاف فرمایا۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ بھی اس سنت پر اہتمام سے عمل فرمایا کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن جاری رہنے پر دو اہم مسائل کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔

اعتکاف: ثواب کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کو اعتکاف کہا جاتا ہے۔ اعتکاف میں انسان دنیاوی مشاغل چھوڑکر اللہ تعالیٰ کے در یعنی مسجد کا رخ کرتا ہے۔ پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو خاص تعلق اور قربت پیدا ہوتی ہے ،وہ تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے۔ نفلی اعتکاف تھوڑی دیر کے لئے بھی ہوسکتا ہے، لیکن مسنون اعتکاف رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علیٰ الکفایہ ہے، یعنی محلے میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ 

رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے کوشش ہونی چاہئے کہ ہر بڑی مسجد میں کم از کم ایک فرد اعتکاف کرلے، اور اس میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے۔

مرد حضرات کے اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہے، یعنی وہ گھر میں اعتکاف نہیں کرسکتے ، البتہ خواتین اپنے گھر کی اس خاص جگہ پر جو عموماً نماز وغیرہ کے لئے مخصوص کرلی جاتی ہے، اعتکاف کرسکتی ہیں۔

مسنون اعتکاف سے متعلق تین احادیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی، پھر خیمے سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ،پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں ،وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کریں۔ (بخاری ،مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے، وصال تک آپ کا یہ معمول رہا۔ (بخاری ومسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ ﷺ کا وصال ہوا، اس سال آپ ﷺ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری)

اعتکاف کے بعض اہم مسائل واحکام: معتکف کو بلا ضرورت شرعیہ وطبعیہ اعتکاف والی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے۔ معتکف کے متعلقین میں سے کوئی سخت بیمار ہوجائے یا کسی کی وفات ہوجائے یا کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے یا معتکف خود ہی سخت بیمار ہوجائے یا اس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہوجائے تو معتکف کے مسجد سے چلے جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا، لیکن ایسی مجبوری میں چلے جانے سے گنا ہ نہیں ہوگا ان شاء ا للہ، البتہ بعد میں قضا کرلینی چاہئے۔

تازہ ترین