شکوک وشبہات ، ابہام، تنازعات کے درمیان پی پی پی نے کراچی غربی کے این اے 249 کی پی ٹی آئی کی وکٹ اڑادی، پی پی پی کی حیرت انگیز جیت نے تمام تجزیئے، تبصرے اور سروے کے برعکس پہلی پوزیشن حاصل کرلی جبکہ انتخابی مہم کے دوران تمام تجزیہ کاروں نے انہیں چوتھے نمبر پر بھی نہیں رکھا تھا 2018 کے عام انتخابات کے برعکس پی پی پی نے دگنے سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے گرچہ ووٹنگ کی شرح انتہائی کم رہی اس کے برعکس کالعدم تحریک لبیک، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) 2018 کے عام انتخابات کے آدھے ووٹ بھی حاصل نہیں کرپائے۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس جیت پر کہاکہ (ن) لیگ ہار مانناسیکھے ایک تیر سے شیر سمیت کئی شکار کئے یہ درست ہے کہ ایک تیرسے شیر سمیت کئی شکار ہوئے تاہم کہاجارہا ہے کہ کمان کسی اور کا تھا مسلم لیگ(ن) کو شکست دینا مقصد تھا یہ بیان بھی یہی ظاہرکرتا ہے ۔ حالانکہ سیٹ کا دفاع پی ٹی آئی نے کرنا تھا تیر سے ایک شکار ٹی ایل پی کا بھی ہوا کہاجارہا ہے کہ ٹی ایل پی انتخابی نتائج میں لیڈ لے رہی تھی تاہم موجودہ عالمی صورتحال کے پیش نظرٹی ایل پی کو سیٹ دینا معیشت کا جنازہ نکالنا تھا بقول شخصےتیرکا شکار پی ڈی ایم بنی ۔مسلم لیگ(ن) کی جیت پی ڈی ایم کی جیت کہلاتی کیونکہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے مسلم لیگ(ن) کو سپورٹ کررکھا تھا پی ڈی ایم عید کے بعد حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک کا اعلان کرے گی ۔
یہ جیت پی ڈی ایم کو قوت فراہم کرتی ۔پی ڈی ایم کو بھی جھٹکا دینا مقصد تھاجبکہ ایم کیو ایم کو آخر میں رکھ کر ثابت کرنا تھا کہ ایم کیو ایم کی سیاست کراچی سے ختم ہوچکی ہے اس جیت کے ذریعے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان جنگ چھڑنی تھی جو چھڑگئی ہے تاکہ پی پی پی کا پی ڈی ایم میں واپسی کا راستہ روکا جاسکے اسی طرح ایک تیر سے واقعی کئی شکار کئے گئے نتائج پر انتخاب میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں نے تحفظات کا اظہارکردیا ہے پی ٹی آئی نے ری پولنگ جبکہ مسلم لیگ(ن) نے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ایس پی نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے تو ایم کیوایم نے کہاہے کہ ایک جماعت کو ہم پر برتری دلاکہ کیا ثابت کیاجارہا ہے ۔
ان کا اشارہ پی ایس پی کی طرف تھا کالعدم تحریک لبیک نے بھی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم اس جیت کا اثرحکومت پر کم اور اپوزیشن جماعتوں پر زیادہ پڑا ہے۔مسلم لیگ (ن)کے رہنما و سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ این اے 249 میں جو چوتھے نمبر پر بھی نہیں تھے وہ کیسے جیت گئے؟ بلاول صاحب کا مقام نہیں کہ وہ اس پر بات کریں، بلاول بھٹو کو چاہیئے کہ وہ اپنے قد کے مطابق بات کریں۔ کراچی کا انتخاب ڈسکہ سے بھی زیادہ متنازع بن چکا ہے ۔
ریٹرننگ افسر سجاد خٹک نے فیصلہ لکھ کر رکھا ہوا تھا اور جس کے بعد ہماری پٹیشن مسترد کر دی۔ ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے عزائم کیا ہیں۔ قانون میں دوبارہ گنتی کا عمل موجود ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ این اے 249 کے ضمنی انتخاب کے معاملے میں اتنی بے ضابطگیاںہوئیں کہ دوبارہ گنتی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اس حلقے کے 34 پولنگ اسٹیشن کے واٹس ایپ رزلٹ ریٹرننگ افسران کے پاس نہیں آئے۔
انہوں نے کہا کہ سو سے زائد فارم پر دستخط نہیں جو اب آل غزل کے طور پر وزیر تعلیم و محنت سندھ و صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سیاسی پختگی کے حوالے سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی قد تمام سیاستدانوں سے بڑا ہے۔ ہم پر سلیکٹرز کے ذریعے حلقہ این اے 249 کا الیکشن جیتنے کا الزام لگانے والے بتائیں کہ کیا ڈسکہ، وزیر آباد اور نوشہرو کے انتخابات انہوں نے سلیکٹرز کے کاندھوں پر جیتا ہے۔
انتخابات سے 10 روز پہلے ہی سابق گورنر اور مسلم لیگی رہنماء محمد زبیر کو بتا چکا تھا کہ آپ کا امیدوار ایک نااہل امیدوار ہے اور ہم آپ سے تو یہ الیکشن جیت گئے ہیں اب ہمارا اصل مقابلہ ٹی ایل پی سے ہے۔ آصف علی زرداری، ادی فریال اور دیگر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو عدالتیں ضمانت دیں تو ہم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کوئی ڈیل کی ہے اور اگر شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل سے نکال کر انہیں نواز شریف سے جاکر ملاقات کے لیئے راستہ ملے تو اسے کیا کہا جائے۔
اپوزیشن جماعتوں میں شامل نون لیگ اور دوسری جماعتیں خود عمران نیازی کو ہٹانا نہیں چاہیتی اور بوزدار کو گرانا نہیں چاہتے اور الزام ڈیل کا ہم پر لگایا جارہا ہے۔الیکشن کے نتیجے نے پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان دراڑ اور پختہ کردی ہے پی پی پی پر بھبھکیاں کسی جارہی ہے کہ نئے گملے میں مٹی ڈال کر نیا پودا اگایا جارہا ہے پی پی پی کے رہنما سعید غنی نے مشروط طور پر حلقے میں ری پولنگ کا بھی کہا ہے تاہم اسے جتنے والے امیدوار اور پارٹی کے فیصلے سے مشروط کردیا ہے۔
کراچی کے ضمنی انتخاب کو مانیٹر کرنے والی تنظیم فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک نے این اے 249 ضمنی انتخاب سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق کراچی کے ضمنی انتخاب میں الیکشن قوانین کی خلاف ورزیوں کے 143 واقعات ریکارڈ ہوئے۔فافن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 58 خلاف ورزیاں ووٹ ڈالنے اور گننے سے متعلق ہیں جبکہ 11 واقعات میں ووٹر کو ووٹ ڈالنے سے روکتےہوئے واپس بھیج دیا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریبا 40 فیصد افراد ووٹنگ سے جزوی جبکہ دیگر مکمل مطمئن رہے جبکہ دو واقعات میں غیر متعلقہ افراد ووٹراسکرین کے پیچھے گئے۔
الیکشن پر اوربھی کئی سوالات اٹھائے گئے جس میںانتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد سند ھ حکومت کی جانب سے حلقے میں ترقیاتی کام کرانا، کالعدم تنظیم قرار دیئے جانے کے باوجود کالعدم تحریک لبیک پاکستان کو اس کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔جبکہ پولنگ ڈے پر رینجرز نے ایک شخص کو پریزائیڈنگ افسر کو نوٹوں بھرا لفافہ دیتے ہوئے بھی گرفتار کیاتاہم اس شخص کی سیاسی وابستگی ظاہر نہیں کی گئی۔
اس انتخاب میں 7سوکے قریب ووٹ مسترد قرار دیئے گئے ہیں دوبارہ گنتی کے عمل میں مسترد ووٹ میں سے بیشتر کسی بھی جماعت کے ہوسکتے ہیں۔یہ انتخاب اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر 37 نوٹس اور علاقہ بدری کے احکامات جاری کرنے پڑے،31نوٹس پولنگ سے قبل اور 6 نوٹس پولنگ ڈے کے موقع پر جاری کئے گئے، تحریک انصاف کو گیارہ نوٹس پولنگ سے قبل جاری کئے گئے جس میں ان کے وفاقی وزرا کو نوٹس بھی جاری کیے۔