• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر نئی ٹیکنالوجی مختلف اختراعی مراحل سے گزرتی ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی، گزشتہ چند برسوں کے دوران تیزی سے مختلف اختراعی مراحل سے گزری ہے اور اس ٹیکنالوجی کا پرچار کرنے والا طبقہ جہاز کے انجن سے لے کر اپنی پسند اور سائز کے جوتے بنانے تک، ہر جگہ اس کا استعمال کررہا ہے۔

اب امریکا کا ایک تعمیراتی گروپ، کیلی فورنیا میں رہائشی گھروں کی ایک ایسی کمیونٹی تعمیر کررہا ہے، جس میں تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔

15گھروں پر مشتمل اس کمیونٹی ہاؤسنگ اسکیم کی تعمیر میں پائیدار رجحانات کے فروغ کو یقینی بنایا جائے گا۔ تمام تعمیراتی عمل کے دوران، صفر فی صد ضیاع (zero percent waste)کو یقینی بنانے کے علاوہ، تعمیر ہونے والے گھر زیرو انرجی استعداد کے حامل ہوں گے۔

’’دنیا کو تعمیراتی عمل میں ایسے پائیدار رجحانات کو اپنانے کی ضرورت ہے، جس سے ناصرف اس کی اثر پذیری میں اضافہ ہو بلکہ پیداواریت بھی بڑھے تاکہ گھروں کی کمی کے بحران سے نمٹا جاسکے۔ تاہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس سے ماحولیاتی تبدیلی کے بحران میں اضافہ نہ ہو‘‘، ایسا کہنا ہے کیلی فورنیا میں تھری ڈی پرنٹڈ ہاؤسنگ کمیوٹنی کی تعمیر کرنے والی کمپنی کے چیف سسٹین ایبلٹی آفیسر سام روبن کا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ، ’’میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی اگر واحد انتخاب نہ بھی ہو تو یہ چند بہترین انتخاب میں سے ایک ضرور ہے، جس میں نان-کنکریٹ بیسڈ سسٹم ‘کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جیسا کہ ہمارے پاس ہے‘‘۔

اس کمیونٹی ہاؤسنگ کی نمایاں پائیدار خصوصیات میں شمسی توانائی، بیٹری اسٹوریج، کلائمیٹ کنٹرول کا جدید ترین نظام اور واٹر فلٹریشن سسٹمز شامل ہیں۔

پائیدار ترقی کے جن اصولوں کے مطابق یہ کمیونٹی ہاؤسنگ منصوبہ مکمل کیا جارہا ہے، وہ کیلی فورنیا کے متعین کردہ ریاستی اہداف سے بھی بڑھ کر ہےاور اسی معیار کے روایتی گھروں کے مقابلے میں ان کی تعمیر پر40فی صد کم لاگت آئے گی۔ 10ہزار مربع فٹ لاٹ کے 1,450مربع فٹ تعمیراتی رقبہ پر تین بیڈ روم اور دو باتھ روم پر مشتمل یہ گھر 5لاکھ 95ہزار ڈالر میں تعمیر ہوگا، جب کہ اس میں ایک سوئمنگ پول اور ڈیک بھی شامل ہوگا۔

منصوبے کے ڈیویلپرز اس کے لیے پائیداری اور ٹیکنالوجی سے شغف رکھنے والے ملینئلز کو اپنی ٹارگٹ مارکیٹ سمجھتے ہیں، جو اپنے لیے یا تو ویکیشن ہوم تلاش کررہے ہیں یا پھر اپنے لیے کوئی ایسا گھر چاہتے ہیں، جہاں سے بیٹھ کر وہ اپنا کام بھی جاری رکھ سکیں۔ ڈیویلپرز کے مطابق، اس منصوبے میں ریٹائرڈ طبقہ بھی دلچسپی ظاہر کررہا ہے، جو اب نسبتاً چھوٹے اور اَیفیشنٹ گھروں میں رہنا چاہتا ہے۔

ٹارگٹ مارکیٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈیویلپرز دلچسپی رکھنے والے خریداروں کے لیے سِرکیڈین لائٹنگ (لائٹنگ کا ایسا نظام جو دن کے مختلف اوقات میں سورج کی روشنی کی بدلتی نوعیت کے مطابق اپنی روشنی اور رنگ بدلتے ہوئے انسانی صحت اور مزاج پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے)، ہائی ٹیک ڈاروِن ویل نیس سسٹم (یہ ایک ایسا نظام ہے جو روزانہ کی بنیاد پر آپ کو بہتر نیند ، بہتر سانس لینے اور بہتر محسوس کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے، دیگر الفاظ میں یہ ایک اسمارٹ ہوم اِنٹیگریشن اور کنٹرول سسٹم کہلاتا ہے) فراہم کریں گے۔ 

ڈاروِن میں ایک ’’اِن ہانسڈ سلیپ فیچر‘‘ بھی ہے، جو رات میں سونے سے پہلے بیڈروم کے ماحول میں بیرونی دخل اندازی اور نیلی روشنی کو ختم کرکے روشنی کی آلودگی کم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، دلچسپی رکھنے والے خریدار وں کے لیے ’’پرگولا گارڈن‘‘، ہاٹ ٹب، چمنی اور آؤٹ ڈور شاور جیسی اَپ گریڈکی سہولتیں بھی موجود ہیں، جس کے لیے انھیں اضافی ادائیگی کرنا ہوگی۔

کیلی فورنیا کا کمیونٹی ہاؤسنگ منصوبہ ایک سِنگل اسٹوری بلڈنگ منصوبہ ہے، تاہم کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ سال یعنی 2022ء سے کثیرالمنزلہ عمارتوں کے منصوبے بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور جلد ہی تھری ڈی پرنٹنگ کے لیے فائبر ری-اِنفورسڈ پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردے گی۔ تھری ڈی پرنٹنگ میں اس نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے تھری ڈی پرنٹڈ گھروں کے ڈیزائن میں مزید بہتری آئے گی اور ملٹی فیملی ٹاؤن ہاؤس تعمیر کرنا مزید آسان ہوجائے گا۔

مزید برآں، اس سے گھروں کے سب سے مشکل حصوں کی تعمیر کے عمل کو خودکار بھی بنایا جاسکے گا، تعمیراتی شعبہ میں کام کرنے والی افرادی قوت کی پیداواری صلاحیتیں بھی بڑھ جائیں گی، جس سے ناصرف تعمیراتی عمل تیزتر ہوگا بلکہ مستقبل کی افرادی قوت بھی اس شعبہ کی طرف متوجہ ہوگی۔

دنیا بھر میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں 40فی صد کے لگ بھگ حصہ تعمیر شدہ عمارتوں کا ہے اور تعمیراتی صنعت نے گزشتہ چند برسوں کے دوران کوشش کی ہے کہ اس شعبہ میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

تازہ ترین