• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کرۂ ارض پر ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بےپناہ صلاحیت اور اَنواع و اقسام کی دولت سے نوازا ہے۔ وہ ماہِ رمضان میں فریشر کورس سے گزرے ہیں جس میں تقویٰ اختیار کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ایک منظم طریقے سے زندگی اختیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اِس روح پرور تربیتی پروگرام کے اہم پہلو تقویٰ کا فروغ، نفس پر کنٹرول اور عظمت ِبندگی کا حصول ہیں۔ قرآنِ حکیم کے نزدیک متقی شخص وہ ہے جو ﷲ اور آخرت پر ایمان لاتا ہے، نماز قائم کرتا اور جو رزق اُسے عطا ہوا ہے، اُس میں سے خرچ کرتا ہے۔ وہ ﷲ کے خوف سے گناہوں سے بچتا ہے، آخرت میں اجر پانے کے شوق میں نیکیاں پھیلاتا اور یتیموں اور محتاجوں کی دادرَسی کرتا ہے اور تاجدارِ حرم حضرت محمدﷺ کی اطاعت میں ﷲ کے کنبے کی خدمت بجا لاتا ہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں روزہ دار یہ تربیت حاصل کرتا ہے کہ وہ اخلاق کا اچھا نمونہ بنے، انسانوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئے، اُنہیں آسائشیں فراہم کرنے کے لیے ایثار سے کام لے اور اپنے مسلمان بھائی کو ہر طرح کا ضرر پہنچانے سے حددرجہ پرہیز کرے۔ روزہ دار جب راتوں میں قیام کرتا اور قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بناتا ہے، تو اُس کی بندگی کا جوہر نکھرنے لگتا ہے اور اُس کے اندر ایسی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے جس سے حقیقی محبت، دردمندی اور فیاضی کے جھرنے پھوٹتے ہیں۔ روزےدار جسمانی طور پہ بھی بہتر اور رُوحانی اور ذِہنی اعتبار سے بھی آسودگی محسوس کرتا ہے۔ وہ صبر و اِستقامت کا ایک حسین پیکر بن جاتا ہے اور اُس میں رواداری اور شائستگی کے اوصاف فروغ پاتے ہیں۔ اُس کا سینہ تمام کدورتوں سے صاف ہوتا جاتا ہے۔ ہم اگر کامل شعور کے ساتھ رمضان المبارک کے تقاضے پورے کرتے رہیں، تو ہم دنیا کی اعلیٰ ترین منظم قوموں میں شمار ہو سکتے ہیں، مگر حقیقت میں ہم اِس منزل سے بہت دور ہیں۔ شاید اِس لیے کہ ہمارا اپنے رب کریم سے تعلق بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔

قومی سطح پر ہماری یہ اجتماعی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں جس نظم و ضبط اور تزکیۂ نفس کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں، اُس کے اثرات پورا سال قائم رہیں۔ ﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسولؐ سے جو قربت پیدا ہوئی ہے، اُسے قائم رکھیں اور روزے کے دوران غریبوں، حاجت مندوں اور فاقہ کشوں کے ساتھ جو ہمدردی پیدا ہوئی ہے، وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ اِسی طرح ہم رمضان کے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اِحترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہی فضا قائم رکھنے کی شعوری کوشش کی جائے۔ ہمیں ﷲ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی خُو میں استحکام پیدا کرنا چاہیے، کیونکہ اسلام کا اوّلین مقصد ایک خدا ترس اور فلاحی معاشرے کا قیام ہے۔ اب جبکہ ہماری ریاست اپنے شہریوں کی دیکھ بھال، کفالت اور دَستگیری کے فرائض سے غافل ہوتی جا رہی ہے، تو سوسائٹی کے خوشحال اور دَولت مند طبقوں پر یہ بھاری ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی ناانصافیوں پر قابو پانے کے لیے ایثار سے کام لیں۔ یہی حقیقی بندگی کی معراج ہے۔

وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جناب فواد چودھری نے پیش گوئی کی تھی کہ سائنسی شہادتوں کے مطابق رمضان کا چاند 13؍اپریل اور شوال کا چاند 13مئی کو دیکھا جا سکے گا اور عید 14مئی کو منائی جائے گی۔ 14مئی کو جمعۃ المبارک تھا اور چودھری صاحب اِس تاریخی حقیقت سے شاید بےخبر تھے کہ بعض نجومیوں کے مطابق دو خطبے حکومت پر بہت بھاری گزرتے ہیں۔ نصف صدی پہلے اس عنوان سے ہماری تاریخ میں ایک حشر برپا ہوا تھا۔ 1967ء کا ذکر ہے جب فیلڈمارشل ایوب خاں کی حکومت قائم تھی اور وُہ عشرۂ اصلاحات کا جشن منانے کی بڑی پیمانے پر تیاری کر رہے تھے۔ رمضان کا مہینہ آیا، تو یہ امر واضح ہوتا گیا کہ عید جمعہ کے روز ہو گی۔ صدر ایوب خاں کے درباریوں کے مشورے پہ حکومت نے بدھ کی رات اعلان کر دیا کہ شوال کا چاند نظر آ گیا ہے۔ اِس پر علمائے حق حکومت کے خلاف ڈٹ گئے۔ مولانا احتشام الحق تھانوی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، علامہ محمد حسین نعیمی، علامہ اظہر حسن زیدی اور مولانا داؤد غزنوی جیسے بلند پایہ علماء گرفتار کر لیے گئے، چنانچہ ایوب خان کے خلاف مزاحمتی تحریک چل نکلی جو اُن کے اقتدار سے رخصتی پر ختم ہوئی۔

کچھ ایسا ہی واقعہ 12مئی کی رات رونما ہوا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے نئے سربراہ مولانا عبدالخبیر آزاد جو پنجاب محکمۂ اوقاف کے ملازم بھی ہیں، اُنہوں نے رات کے ساڑھے گیارہ بجے اعلان کیا کہ شوال کا چاند نظر آ گیا ہے۔ اُس سے پہلے مفتی پوپلزئی حسبِ روایت اعلان کر چکے تھے کہ کچھ شہادتیں چاند دیکھنے کی موصول ہوئی ہیں لہٰذا کل عید ہو گی۔ رویتِ ہلال کمیٹی کے ایک معزز رُکن کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ چاند تو کہیں نظر نہیں آیا، مگر اعلان کرنے کی مجبوری ہے۔ اگرچہ پورے ملک میں ایک ہی روز عید منائی گئی ہے، مگر عوامی اذہان ناقابلِ بیان شکوک و شبہات کا شکار ہو چکے ہیں۔ ممکن ہے کچھ وقت گزرنے کے بعد عوامی اضطراب میں کمی آ جائے اور کوئی نیا بحران عوام کی توجہ کا مرکز بن جائے کہ اِن دنوں ہمارے سیاسی حالات کا یہی چلن ہے، مگر خوف اُس روش کی ہولناکی سے محسوس ہو رہا ہے جو پاکستان کے وزیرِاعظم جناب عمران خاں نے رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ کے روضۂ اقدس پر حاضری دینے کے بعد اختیار کی ہے۔ ہم پورے رمضان المبارک ایک دعا تواتر سے مانگتے رہے کہ اے ﷲ ! تو سراپا عفوودرگزر ہے، معاف کر دینے کے عمل کو پسند کرتا ہے، میرے ساتھ بھی عفوودرگزر سے کام لے۔ اِس دعا کا ایک قدرتی تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے کو معاف کرنے کی سنت اپنائیں۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے پاکستان پہنچتے ہی گڑے مردےاکھاڑنے اور سیاسی حریفوں کا نمدہ کسنے کا اعلان فرما دیا ہے جبکہ اصل ضرورت رمضان المبارک کے عظیم الشان تربیتی پروگرام کی روح بیدار اَور توانا رکھنے اور ذوقِ بندگی کو نشوونما دینے کی ہے۔

تازہ ترین