• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جمہوری عمل کا ارتقا جو پچھلے 74سالوں سے زوال پذیری کا شکار ہے حالیہ ضمنی انتخابات نے اسے مزید بڑھا دیا ہے۔خاص طورپر ڈسکہ اور کراچی کے الیکشن سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ آسمانوں سے بجلیاں گرانے والی قوتوں نے آئندہ انتخابات اور اپنی من پسند حکومت کے لیے ابھی سے نئی صف بندیاں شروع کر دی ہیں۔تاریخ دانوں نے مختلف قوموں کے زوال کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں ایک اہم وجہ ان حلقوںیا طبقات کو بھی قرار دیا ہے جو عوام اور ریاست کے درمیان کوئی رشتہ استوار نہیں ہونے دیتے۔کراچی کے حالیہ الیکشن سے مبصرین یہ نتیجہ اخذ کررہے ہیں کہ کچھ نئی جماعتوں کو بھی آئندہ الیکشن کے لیے تیار کیا جارہا ہے اورظاہر ہے اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کو گزشتہ الیکشن میں حاصل ہونے والی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔حالیہ الیکشن میں2018ء کے الیکشن کی قلعی بھی کھل گئی، تحریک انصاف اپنی جیتی ہوئی سیٹ پر چھٹے نمبر پر آئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف کو ملنے والا مینڈیٹ اس کا نہیں تھا۔کراچی کے الیکشن کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے 74سالہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔اس سے پہلے جب لسانی تنظیم کو کھڑا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی کراچی شہر میں شدید بدامنی پیدا ہوگئی تھی۔آج بھی نئی صف بندیوں سے کراچی کے حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیں تاکہ سیاسی عمل آگے بڑھ سکے۔اگر شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کیا گیا ہوتا تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا اور اگر بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اسے الیکشن لڑنے کی اجازت دی جاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔

گوکہ 2017ء کے الیکشن میں تحریک لبیک کو الیکشن لڑوانے کا مقصد یہ تھا کہ دائیں بازو کے ووٹوں کو تقسیم کیا جائے تاکہ مخلوط پارلیمنٹ کا راستہ ہموار ہوسکے لیکن حالیہ دونوں انتخابات سے تو پتہ چلتا ہے کہ اسی فارمولے کو آگے بڑھایا جائے گا تاکہ آئندہ الیکشن میں بھی کوئی جماعت واضح اکثریت سے اقتدار میں نہ آسکے اور اداروں کی دست نگر ہو ۔یورپین سیاسی تاریخ سے یہ امر واضح ہو جاتاہے کہ الیکشن کا تسلسل ہی سیاسی جماعتوں میں ادارہ سازی کو مضبوط کرتا ہے اور ادارہ سازی کی بدولت ہی بدعنوانی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔انتخابات میں سیاسی جماعتیں کامیاب ہوں یا ناکام، انتخابات کا تسلسل سیاسی جماعتوں کی سمت درست کرتا رہتا ہے جس سے ان کی جڑیں سماج میں مضبوط ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے سالہا سال منصوبہ بندی کرتی ہیں اور جو سیاسی جماعتیں سیاسی عمل سے دور رہتی ہیں وہ آہستہ آہستہ قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔آج اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں دوبارہ کسی کی آغوش میں جانے پر راضی ہو گئیں تو اس سے نہ صرف سیاسی ارتقا کو بہت بڑا دھچکا پہنچے گا بلکہ سماج اور آئین کی پاسداری کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

یاد رہے کہ فرقہ واریت کو جب سے پاکستانی سیاست میں استعمال کرنا شروع کیا گیا ہے تو اس سے نہ صرف بنیادپرستی بڑھی ہے بلکہ اب یہ پاکستانی سماج اور عوام میں بھی سرایت کر گئی ہے اور جب سے فرقہ وارانہ جماعتوں کوحکمرانوں کی پشت پناہی حاصل ہوئی ہے تو اس وقت سے ان جماعتوں نے اپنے فرقہ وارانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف سیاسی رہنمائوں کو ڈرا نا دھمکانا بھی شروع کردیا ہے اور پاکستانی سماج کے زوال اور سیاسی ارتقا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ماضی میںہم نے دیکھا کہ کس طرح پنجاب کی نگران حکومت نے راتوں رات فورتھ شیڈول میں شامل لوگوںکے نام نہ صرف اس فہرست سے نکالے بلکہ انہیں الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دی گئی یقیناً اس سارے عمل سے نواز شریف کو تو شکست ہوگئی لیکن اس کے نتیجے میں بننے والا سماج نہ صرف فرقہ وارانہ تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہوا بلکہ عالمی اقوام میں بھی پاکستان کے مقام کو کافی دھچکا پہنچا۔یورپی یونین کی حالیہ قرار داد ہماری انہی پالیسیوں کے تسلسل کا ہی نتیجہ ہے ۔مبصرین کا خیال ہے کہ کچھ سیاسی شخصیات سے انتقام لینے کے لیے پورے سماج کو گھپ اندھیروں میں جھونک دینا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔

آج کے سیاسی ابتری کے ماحول میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بجائے حکمرانوں کی صف بندی میں چلنے کے مل کر ایک نئے میثاق جمہوریت پر دستخط کریں اور ایسے قوانین وضع کریں جن کی بدولت پاکستانی ریاست حقیقی معنوں میں وفاقی اور فلاحی ریاست کا روپ دھار سکے۔آج کے پاکستانی سیاسی پس منظر کو دیکھ کر یہ ضرورت بھی محسوس کی جارہی ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے صبر آزما سیاسی جدوجہد کے آغاز سے گریز کرنے کی بجائے اسے عملی شکل دیں۔وہ جمہوری قوتیں جو اب کسی حد تک نظریاتی بھی ہو گئی ہیں انہیں مسلسل اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے رہنا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں پاکستان میں ایک بہتر ماحول میں زندگی بسر کرسکیں۔

تازہ ترین