• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
رمضان المبارک کے روزےبھی ساتھ خیر کے گزر گئے اور عید بھی منالی ۔ اب پھر وہی روٹین ہے اور کورونا کا رونا ہے کہ اس سے کب نجات ملے گی ۔ برطانیہ میں حالات بہتری کی طرف تیزی سے گامزن تھے اور مگرپھر کورونا کی انڈین قسم آگئی اور پابندیاں پھر سے لگنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ۔ اس پر وزیر اعظم بورس جانسن پر تنقید بھی کی جارہی ہے کہ کیوں انڈیا کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے پر دیر لگائی حالانکہ پاکستان کو تو زیادہ کیسز نہ آنے پر بھی ریڈ لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا ۔ مانا کہ یہ درست وقت نہیں ہے سیاست کھیلنے کا لیکن ایسے مواقع پر ہی تو حکومتیں سوالوں کی زد میں آتی ہیں جب عوام کو حکومتی فیصلے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہونا پڑے ۔ اب جبکہ برطانوی عوام یہ امید کر رہے ہیں کہ زندگی نارمل ہونے لگی ہے تو ایسے میں اگر کوئی اور قسم آکر زندگی کو پھر سے روک دے گی تو لوگ تو بپھرے گے ہی ۔ ابھی حالیہ ہو نےوالے انتخابات میں کنزرویٹو یعنی حکمراں جماعت نے اچھی کامیابی حاصل کی ہے لیکن اگر بات پھر سے پابندیاں لگنے کی ہوگی تب لوگ یہ سب بھول جائیں گے اور حکومت کے لئے عوام کوسنبھالنامشکل ہوجائے گا ۔ اچھا اس سیاست کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس میں ترجیحات کا تعین تعلقات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات اچھے ہیں ان کو ترجیح دی جاتی ہے اور جن کے ساتھ سفارتی معاملات بہتر تو ہوں لیکن تجارتی تعلقات اتنے فائدہ مند نہیں ہوں تو ان کے ساتھ ڈیل بھی پھر اسی طرح کی جاتی ہے ۔ یہاں بھی کچھ یہی ہوا ہے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے میں جلدی کی گئی اور انڈیا کے معاملے پر ڈھیل دی گئی جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اتنی ماس و یکسی نیشن رول آوٹ ہونے کے باوجود بھی کیسز میں تیز اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ظاہر ہے کہ کیسز میں اضافے کامطلب اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا ۔ ابھی تو سمر کی بھی شروعات ہوئی ہے اگر کیسز کو قابو نہیں کیا گیا تو پھر سمر سیزن میں جو پیک آئے گی وہ پہلی سے بھی زیادہ اونچی ہوگی اور یہ ہم اپنے اندازے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہے بلکہ برطانیہ کی میڈیکل ایسویشنخبردار کر رہی ہے کہ صورتحال خراب ہوسکتی ہے اور اسی لئے وزیر اعظم بھی کہنے لگے ہیں کہ اکیس جون کو تمام پابندیاں ختم کرنے کا پروگرام موخر بھی کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی انڈیا کو ریڈ لسٹ میں ڈالنے کا دفاع بھی کر رہے ہیں کہ برطانیہ کا بارڈر کنٹرول پہلے ہی بہت سخت ہے ۔ اگر ایسا ہی سخت ہے تو کیسے انڈین قسم کاکورونا برطانیہ میں ایسے داخل ہواکہ ساڑھے پانچ سو کیسز صرف انڈین قسم کے رپورٹ ہوگئے ۔ اس کا مطلب ہے بارڈر کنٹرول پر بھی کہیں نہ کہیں لچک تو موجود ہے جبھی تو یہ نئی قسم آبھی گئی اور پھیل کر ملک میں خطرے کی گھنٹی بجا بھی رہی ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔
تازہ ترین