• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

مٹی کی ہانڈیوں میں لکڑی کی آگ پر جو کھانا پکایا جاتا تھا یقین کریں اس کا لطف ہی کچھ اور ہوتا تھا۔دھنائی ہوئی چائے جس میں لکڑی کی مخصوص خوشبو بھی شامل ہو جاتی تھی اس چائے کا کیا لطف تھا۔ لاہور شہر میں کئی چائے کی دکانیں تھیں جہاں چینی کی پیلی کیتلیوں میں چائے پکتی تھی اور ان دکانوں پر دھاگے کے ساتھ چائے کی پتی کے چھوٹے چھوٹے لفافے پڑئے ہوتے تھے ایک دوآنے کی یہ پتی تھی ۔چائے کی دکان پر ریڈیو سیٹ ضرور ہوتا تھا جس میں گانے اور خبریں چلتی رہتی تھیں کچھ دکانوں پر گرامو فون ریکارڈ بھی بجائے جاتے تھے۔ رفیع اور لتا کے گانے لوگ ذوق و شوق سےسنتے تھے۔مٹی کے تیل،بورے والی انگیٹھی اور سوئی گیس کے آنے سے قبل لاہور شہر کے ہر گھر اور مکان میں لکڑیوں، پتھر کے کوئلے اور کچے کوئلے پر کھانا پکایا جاتا تھا ۔حلوائیوں کی دکانوں پر لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑے (ڈکے) چولہے میں ڈالے جاتے تھے ۔

لاہور کے تمام دیہاتی علاقوں (لاہور کے سارے دیہاتی علاقے ڈی ایچ اے اور دیگر ہائوسنگ اسکیموں کی نذر ہو گئے۔اب کون سا گائوں اور کون سے کچے مکان ،کون سے پانی کے کھالے اور کھیت، سب کچھ تو پلازوں اور جدید کوٹھیوں کی نذر ہو گئے) میںکمہاروں کی ہٹیاں (دکانیں) ہوا کرتی تھیں جہاں کمہار مٹی کی چکی پر مختلف چیزیں بنایا کرتے تھے۔ ارے بابا اب تو صرف دو چار برس کی بات ہے کہ پورے پنجاب میں ایک بھی گائوں نظر نہیں آئے گا۔ہائوسنگ اسکیمیں ہر جگہ پھیل چکی ہیں ایک دن اس آلودہ ماحول کی وجہ سے ایسی ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو ناقابلِ علاج ہو جائیں گی۔

مٹی کے برتنوں میں دہی جمانے اور اس کے کھانے کا جو مزہ ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔جنہیں ہم کونڈے کہتے ہیں اب تومٹی کے کونڈے بھی کم نظر آتے ہیں ۔آج آپ کو لاہور کی قدیم ترین مارکیٹ کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں اس عمارت کو ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں کبھی یہاں شیخ محمد اقبال کا الفتح ڈیپارٹمنٹل اسٹور، الحمرا اسٹور اور پنجاب اسٹور ہوا کرتے تھے، اس کے علاوہ لائل پور اسٹورڈبل روٹی اور بن کا تھا جہاں گورنمنٹ کالج، میو اسکول آف آرٹس ( این سی اے ) اور پنجاب یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کباب، سلائس، اور کباب بن مکھن بڑے شوق سے کھانے آتے تھے، اسی ٹولنٹن ماکیٹ میں میڈیکل اسٹور اور کیپری ریسٹورنٹس بھی تھے ۔دو بک اسٹال تھے، ایک اسلحے کی دکان، گوشت اور سبزی کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ ملک بار کا کیلے کا ملک شیک اور کیلے کی آئس کریم اس قدر لذیذ تھی کہ کیا بیان کریں۔ کبھی یہاں معروف فوک گلوکار سائیں اختر آیا کرتےتھے جبکہ اس کی بیک سائیڈ پر مرغیوں، طوطوں، چڑیوں، مرغابی، تیتر، بٹیر، مچھلی کی دکانیں تھیں۔ دراصل کبھی یہ ٹولنٹن مارکیٹ، صنعتی نمائش گاہ تھی، یہ خوبصورت تاریخی عمارت 1864قائم ہوئی تھی۔ اس سال یکم جنوری کو گورنمنٹ کالج لاہور اور 4 جنوری کو ہی ایف سی کالج کی بنیاد رکھی گئی تھی ۔

ٹولنٹن مارکیٹ کو کبھی میونسپل مارکیٹ بھی کہا جاتا تھا ۔عزیز قارئین ٹولنٹن مارکیٹ سے گول باغ کی روڈ کو کبھی نمائشی روڈ بھی کہتے تھے ۔گول باغ میں کسی زمانے میں ہفتے میں دو مرتبہ فوجی بینڈ کا مظاہرہ بھی ہوا کرتا تھا۔اسی طرح کبھی لارنس گارڈن کے مرکزی گیٹ کے پاس بھی فوجی /پولیس بینڈ اتوار کو مظاہرہ کیا کرتا تھاجو ہم نے بھی کئی مرتبہ دیکھا ہے ۔گول باغ میں لالہ لاجپت رائے کا مجسمہ بھی تھا۔گول باغ کا اس فوجی بینڈ کے مظاہرے کی وجہ سے نام بینڈ اسٹینڈ گارڈن بھی پڑ گیا تھا۔ٹولنٹن مارکیٹ کو اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر ہینری فلپس ٹولنٹن نے بنوایا تھا، اس لئے اس مارکیٹ کا نام ان کے نام پر رکھ دیا گیا ۔ہنری فلپس ٹولنٹن بعد میں لاہور کے ڈپٹی کمشنر بھی ر ہے تھے ۔ یہ عمارت بھائی رام سنگھ نے تعمیر کی تھی بھائی رام سنگھ پہلے ہندوستانی تھے جو میو اسکول آف آرٹس کے پہلے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل بنے اس سے قبل انگریز پرنسپل ہوا کرتے تھے البتہ مسلمان بھی اس کے پرنسپل رہے ( قیام پاکستان سے قبل)۔ ٹولنٹن مارکیٹ مال روڈ کی سب سے خوبصورت عمارت ہے، ملکہ وکٹوریہ کے حکم پر پنجاب صنعتی نمائش کا انعقاد اسی جگہ کیا گیا، اس سے قبل ولایت میں اس قسم کی نمائشیں ہوچکی تھیں، ٹولنٹن مارکیٹ جسے صنعتی نمائش گاہ بھی کہا جاتا ہے یہاں جنوری 1864سے اپریل 1864تک یہ صنعتی نمائش جاری رہی جس میں مشینری، کرافٹ، فائن آرٹس ،خوش نویسی کے نمونے اور نان پروڈکٹ اشیاء وغیرہ رکھی گئیں یہ نمائش بڑی کامیاب رہی۔فنون لطیفہ ، خصوصاً قدیم جیولری، پینٹنگز ،راجہ مہاراجوں کے ملبوسات، ان کی تصاویر، سرامکس،مٹی کے خوبصورت برتن وغیرہ یہاں نمائش کے لئے رکھے گئے اور اس وقت کےاخبارات میں اس صنعتی نمائش کے بڑے چرچے بھی ہوتے تھے ۔اس کو ہم لاہور کا پہلا عجائب گھر بھی کہہ سکتے ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ جب لوگوں کی دلچسپی اس قسم کی اشیاء کو دیکھنے میں بڑھی اور نوادرات بھی کافی اکٹھے ہوگئے تو پھر اس کو باقاعدہ عجائب گھر بنا دیا گیا۔اس عمارت کا ڈیزائن ولایت کے انجینئر کیپٹن فرانسس نے بنایا لیکن 1894میں ٹولنٹن مارکیٹ اور میو اسکول آف آرٹس (این سی اے) اور بھنگیوں کی توپ کے سامنے باقاعدہ عجائب گھر بنا کر ٹولنٹن مارکیٹ میں رکھی گئی تمام اشیاء وہاں رکھ دی گئیں اور اس تاریخی عمارت کو جو بہت خوبصورت ہے کو میونسپل کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔

1920 میں فادر آف لاہور سر گنگا رام نے اس خوبصورت عمارت کا بہترین مصرف سوچا اور اس میں لاہور کی پہلی ڈیپارٹمینٹل مارکیٹ بنا دی۔ ڈیپارٹمنٹل مارکیٹ جس میں ایک ہی چھت تلے آپ کو تمام ضرورت اشیاء مل جائیں اگرچہ اس وقت لاہور میں کچھ اور ڈیپارٹمینٹل ا سٹور بھی تھے جن کا ذکر ہم آئندہ کبھی کریں گے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین