• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کلب کرکٹ کی بحالی میں سست روی نقصان کا باعث

پی سی بی کلب کرکٹ کی بحالی میں بہت سست روی کا مظاہرہ کررہی ہے پی سی بی کے عجلت میں کئے گئے فیصلوں سے ملکی کرکٹ کو نقصان پہنچ رہا ہے گراس روٹ لیول کی کرکٹ کو جلدبحال کرنے کی ضرورت ہے ، 2018 میں وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر احسان مانی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئر مین مقرر کیا گیا۔ 

وسیم خان چیف ایگزیکٹو پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدے پر فائز ہوگئے،2018 میں ملک کے بیشتر ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن کے الیکشن منعقد ہوئے ،اس وقت ملک میں 16 ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز اور 88 ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز کام کررہی تھیں اس الیکشن کے نتیجے میں منتخب شدہ عہدیداران کو تین سال کی مدت کے لئے منتخب کیا گیا تھا مگر اچانک پاکستان کرکٹ بورڈ نے 19 اگست 2019 کو پی سی بی کے ماڈل آئین2015 کو ختم کرکے تمام ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز کو تحلیل کردیا اور پی سی بی کا نیا آئین 2019 متعارف کراتے ہوئے چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 

2018 کے الیکشن کے نتیجے میں منتخب شدہ عہدیداران کو کام کرتے ہوئےصرف 15 ماہ کا عرصہ ہی گذرا تھا ، پی سی بی نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی کہ تمام ڈیپارٹمنٹس کو بھی ختم کردیا ، اس فیصلے سے ہزاروں کرکٹرز بےروزگار ہوگئے 19 اگست 2019 کو جب تمام ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشنز تحلیل کردی گئیں تو پاکستان کی کرکٹ میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ملک میں کرکٹ کو مصنوعی انداز میں چلانے ، وزیراعظم پاکستان کے ویژن کو تقویت دینے کے لئے چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی ٹیمیں تشکیل دے کر فرسٹ کلاس کرکٹ کرانے کا فیصلہ کیا اور ہر صوبائی ایسوسی ایشن میں اپنے ہیڈ کوچ ، اسسٹنٹ کوچ اور سپورٹنگ اسٹاف کو تعینات کرکے ان کے ذریعے کھلاڑیوں کا سلیکشن کرایا گیا اور قائد اعظم ٹرافی کے لئے 32 ، 32 کھلاڑیوں پر مشتمل چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی ٹیموں کا انتخاب کرلیا گیا اور اس طرح ڈومیسٹک سیزن 2020-2019 میں پورے پاکستان سے چھ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز سے 192 کھلاڑی قائد اعظم ٹرافی کے لئے منتخب ہوئے۔

ان ٹیموں کو کسی بھی طرح صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کی نمائندہ ٹیم نہیں کہا جاسکتا تھا کیونکہ جب صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیموں کا انتخاب کیا گیا تو کئی باصلاحیت کھلاڑی ٹیموں میں جگہ بنانے سے محروم رہے ، بنیادی وجہ یہ تھی کہ پی سی بی کی ہدایت پر کوچز کھلاڑیوں کو ٹرائل پر بلاتے اور ٹیم منتخب کرکے پی سی بی کو بھیج دیتے تھے یقینی طور پر کھلاڑیوں کے سلیکشن میں کوچز کی پسنداور ناپسند بھی شامل تھی،کرکٹ کے حلقوں کی جانب سے منتخب شدہ ٹیموں پر تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ 

جس کے بعد پی سی بی کو پاکستان کے سابق کپتان راشد لطیف ، مصباح الحق اور ندیم خان پر مشتمل ایک ریویو کمیٹی تشکیل دینا پڑی تھی جس کے بعد کئی کھلاڑیوں کو صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیموں میں شامل کیا گیا جس کی واضح مثال سندھ سے تعلق رکھنے والے لیفٹ آرم اسپینر نعمان علی اور زاہد محمود اور ناردرن سے تعلق رکھنے والے عمران بٹ ہیں یہ تینوں کھلاڑی آج پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں جبکہ نعمان علی اور عمران بٹ اب تک چار چار ٹیسٹ میچوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرچکے جبکہ زاہد محمود بھی 20/T انٹرنیشنل میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ 

اس کے علاوہ بھی کئی کھلاڑی تھے جنہیں ریویو کمیٹی کی شفارشات پر صوبائی ایسوسی ایشن کی ٹیموں میں شامل کیا گیا اور انہوں نے اپنے سلیکشن کو درست ثابت کیا اس کے بعد ڈومیسٹک سیزن 2020-2021 میں قائداعظم ٹرافی کے لئے فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون کے لئے صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کی ٹیموں کے لئے کھلاڑیوں کی تعداد 32 سے بڑھا کر 45 کردی گئی اس طرح پورے ملک سے 270 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیاجنہوں نے قائد اعظم ٹرافی میں فرسٹ الیون اور سیکنڈ الیون کی نمائندگی کی فرسٹ الیون نے فرسٹ کلاس میچوں میں حصّہ لیا جبکہ سیکنڈ الیون نے نان فرسٹ کلاس میچوں میں حصہ لیا۔ 

اسی طرز پر انڈر 16 اور انڈر 19 کی ایک ایک صوبائی ٹیم تشکیل دی گئی جوکہ گراس روٹ لیول کی کرکٹ کو تباہ کرنے کے مترادف تھا ، ڈومیسٹک سیزن 2018-2019 میں سندھ میں تین ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز موجود تھیں جس میں کراچی کی دو انڈر19 ٹیمیں ہوتی تھیں جبکہ حیدرآباد اور لاڑکانہ کی ایک ایک ٹیم ہوا کرتی تھیں اس طرح سندھ سے 80 کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا تھا اور یہ کھلاڑی بڑے مضبوط نظام کے تحت منتخب ہوتے تھے ،کراچی میں سات زون ہوا کرتے تھے اُن کے مابین پی سی بی انٹر ڈسٹرکٹ انڈر 19 کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کراتا تھا ہر زون کو چھ چھ میچ کھیلنے کو ملتے تھے ان میچوں میں ہر زون سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دس دس کھلاڑیوں کو ریجن کی ٹیم کے سلیکشن کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ 

اس طرح سات زون کے 70 کھلاڑیوں میں سے کراچی ریجن کی دو ٹیموں کے لئے 40 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا تھا یہی سسٹم حیدرآباد اور لاڑکانہ کے علاوہ پورے ملک میں رائج تھا اور بالکل اسی طرز پر پی سی بی کی جانب سے قائد اعظم ٹرافی میں حصّہ لینے والی ریجن کی فرسٹ کلاس ٹیم کے انتخاب کے لئے سنیئر انٹر ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں ہر زون سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دس دس کھلاڑیوں کو ٹرائل پر بلا کر قائد اعظم ٹرافی کی ٹیم منتخب کی جاتی تھی جوکہ کراچی کی نمائندہ ٹیم ہوا کرتی تھی۔ 

یہی طریقہ کار پورے ملک کے 16 ریجن میں رائج تھا مگر تقریباً پونے دو سال کا عرصہ گذُرنے کے بعد بھی پاکستان کرکٹ بورڈ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ پرانے سسٹم میں کیا خرابی تھی اور نئے سسٹم میں کیا خوبیاں ہیں پرانے سسٹم سے ہر سال ریجن کی سطح پر کئی نوجوان کھلاڑی ابھر کر سامنے آرہے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے اور آج بھی جو کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لے رہے ہیں۔ 

وہ پرانے سسٹم ہی کی پیداوار ہیں ،گذشتہ دو سال سے پورے ملک میں کلب کرکٹ نہیں ہورہی جس سے کھلاڑیوں میں مایوسی پھیلتی جارہی ہے گراس روٹ لیول کی کرکٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے نئے کھلاڑی آنا بند ہوگئے ہیں پی سی بی نے کلب کرکٹ کی بحالی ، سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے قیام اور صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کو اختیارات کی منتقلی میں بہت سست روی کا مظاہرہ کیا ہے جس سے ملکی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین