رمضان المبارک اور کرونا کی خطر ناک لہر کی وجہ سے ملک میں سیاسی طور پر گڑبڑاور ہلچل میں ٹھیرائو رہا تاہم حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میڈیا میں لفظی گولہ باری جاری رہی اور اس لفظی گولہ باری میں حکومتی ترجمان ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سرفہرست رہے بلخصوص پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی کشیدگی میں کراچی کے حلقے 249کے انتخابات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا یہ نشست پیپلزپارٹی نے جیت لی مگر مسلم لیگ (ن) ہار ماننے کیلئے تیار نہیں تھی۔
دونوں جماعتوں میں الزامات کی بوچھاڑ ہوئی اور دونوں بڑی جماعتوں میں دوریاں بڑھ گئی اگرچہ حکومت کے ہاتھ سے اس کی اپنی نشست نکل گئی اور تحریک انصاف کی پوزیشن پانچویں ،چھٹے نمبر پر تھی اتنی بری شکست تحریک انصاف کراچی کی قیادت بلخصوص وفاقی وزیر فیصل ووڈا اور گورنر سندھ عمران اسمائیل کیلئے شرم ناک تھی اگر فیصل ووڈا اپنے حلقے پر توجہ دیتے تو ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی یہ حالت نہ ہوتی فیصل ووڈانے اپنے ووٹرز کو نظر اندا ز کئے رکھا وفاقی حکومت کوبھی یہ نشست چھوڑنے سے قبل صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے تھا۔
بہر حال تحریک انصاف کیلئے یہ بات قابل اطمنان ہے کہ قومی اسمبلی کی ایک نشست کی وجہ سے دو بڑی پارٹیوں میں لڑائی بڑھ گئی جس کا آغاسینٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کی نشست اور بطور اپوزیشن لیڈر کا انتخاب جیتنے کی وجہ سے ہوا بہرحال ایک ماہ کی خاموشی کے بعد عمران حکومت کیلئے ایک بھونچال آنے والا ہے کیونکہ سیاسی مبصرین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان ان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر نہیں لگ رہے کیونکہ اس سے قبل میاں نواز شریف کو بیرون ملک بھیجا اس وقت میاں نواز شریف کی خطر ناک صورتحال کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان ڈر گئے کہ کہی خدا نخواستہ میاں نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو ان کی موت ہمارے گلے میں پڑ جائے گی مگر لندن پہنچتے ہی میاں نواز شریف بالکل تندرست نکلے۔
میاں نواز شریف کی اس صورتحال کا وزیرا عظم عمران خان کو بہت دکھ ہوا اور اس کا آج تک انہیں پچھتاوا ہے ان کے بعد مریم نواز کے بیرون ملک جانے کی کوششیں ہوئی اور ان کے ترجمان محمد زبیر نے اپنے ماضی کے تعلقات کا فائدہ اٹھاتےہوئے آرمی چیف سے بات کی مگر آرمی چیف نے دو ٹوک جواب دے دیا ریلیف عدالتوں سے لیں اور اسمبلی کے اندر معاملات طے کریں اور مریم نواز باہر نہ جاسکی اب تازہ ترین صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں میاں شہبا ز شریف کو عدالت نے باہر جانے کا اجازت دی اور وہ وزیر اعظم کی ملک سے عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیرون ملک جانے کیلئے ایئر پورٹ پہنچے مگر وزیر اعظم نے سعودی عرب میں بیٹھ کر اپنے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو ہدایت کی کہ شہباز شریف کو کسی صورت باہر نہ جانے دیا جائے۔
اس ہدایت پر عملدرآمد ہوا اور ایف آئی اے نے فنی بنیاد پر ان کی روانگی روک دی اور انہیں واپس لوٹنا پڑا ،یقیناً شہباز شریف بھی کسی طے شدہ منصوبے کے تحت بیرون ملک جارہے تھے مسلم لیگ ن کے دیگر لیڈرمیاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجاز ت نہ دینے کو توہین عدالت قرار دے رہے ہیں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر دی گئی جبکہ حکومت بھی ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کردیا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ملک میں کشیدگی اور اضطراب میں کمی ہو کیونکہ خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے ملک اندرونی اور بیرونی طور پر خطرات سے دو چار ہے مگر وزیر اعظم عمران خان اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ ان کرپٹ لوگوں کو این آر او نہیں دے سکتے اگر وہ این آر او دیتے ہیں تو ان کا تونظریہ اور موقف ہی ختم ہو جائے گا وزیر اعظم اس حد تک تیار ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے میں کسی صورت کرپٹ لوگوں کو این آر او نہیں دوں گا ، اسٹیبلشمنٹ اب اس طرح حکومت کے ساتھ نہیں چل رہی جیسے کچھ عرصہ پہلے وہ ساتھ تھی یہ صورتحال آگے چل کر مزید دوریاں پیدا کر سکتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ذہنی طور پر اسمبلیاں توڑنے پر تیار ہو چکیں ہیں۔
وہ دو تین مہینے کے اندر عوام کو سہولتیں دینے کے چند بڑے منصوبوں پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں جن میں نوجوانوں کو کاروبار کیلئے قرضوں کا اجراء ، پورے ملک میں ہیلتھ کارڈ اور کسانوں کیلئے کارڈ جاری کرنے کے منصوبوں پر عمل ہو چکا ہے وزیر اعظم نے وزیر خزانہ کو بھی ہدایت کی دی ہے کہ وہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگائے اور ایسا بجٹ بنائیں جس میں غریبوں کو اور مڈل کلاس کے لوگوں کو سہولت ملیں ، کیونکہ بجٹ میں اب بھی اگر عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ وزیر اعظم اپنے خلاف مہنگائی کے پراپیگنڈہ کا توڑ چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مشکل ترین حالات میں انہوں نے معیشت کو پٹری پر چڑھا دیا ہے وہ چند ایسے کام کر جائیں کہ آئندہ انتخابات میں عوام کا سامنا کر سکیں وزیر اعظم اگر آئندہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو ان کی سیاست کا محور یہ ہی ہو گا کہ انہوں نے حکومت چھوڑ دی مگر کرپٹ لوگوںکو این آر او نہیں دیا ، وزیرا عظم عمران خان کیلئے آئندہ ایک دو ماہ بہت اہم ہیں اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے ،حکومت کے زبر دست حامی تجزیہ نگار وں اور اینکرز نے بھی وزیر اعظم عمران خان کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان آئندہ وزیر اعظم نہیں بن سکتے ، یہ باتیں نشان دہی کرتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت میں کچھ دوریاں ہوئی ہیں وزیر اعظم عمران خان اس حوالے سے ایک صاف گو شخصیت ہیں۔
انہوں نے اپنے سب سے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کو بھی ریلیف نہیں دیا حالانکہ جہانگیر ترین نے 30 سے 40 ارکان کا اسمبلی کا گروپ بنا کر وزیر اعظم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی مگر وزیر اعظم نے کوئی دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا وزیر اعظم نے حال ہی میں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کر دی جس میں اربوں روپے کا گھپلا ثابت ہوا ہے اور اس اسکینڈل میں ان کے دو قریبی رفقا سرور خان اور زلفی بخاری کے نام بھی آرہے ہیں اگر وزیر اعظم چاہتے تو اپنے ساتھیوں کوبچانے کیلئے یہ معاملا دبا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔