• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک استاد اور شاگرد دنیا کو سمجھنے کی غرض سے کشاں کشاں دیس بدیس جا رہے ہوتے ہیں وہ اس دوران یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ دنیا کی خواہشات انسان کو اس کے مقصد سے دور کرتی چلی جاتی ہیں۔ مگر شاگرد کے دل میں پھر بھی دنیا کی محبت کا دیپ کہیں نہ کہیں جل رہا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ دونوں ایک جنگل سے گزر رہے ہوتے ہیں کہ نیند کا غلبہ ہونے لگتا ہے۔ استاد کا سر ٹکانے کی غرض سے شاگرد کو ئی پتھر روڑہ تلاش کرنے نکل پڑتا ہے کہ یکا یک شاگرد کی نظر ایک سونے کی اینٹ پر پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی طلب جاگ اٹھتی ہے وہ اپنی گدڑی میں سونے کی اینٹ چھپا لیتا ہے اور ایک دوسری اینٹ لے کر استاد کے پاس واپس چلا جاتا ہے۔ استاد آنکھیں موند کر لیٹ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد استاد کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ شاگرد سونے کی بجائے بیٹھا ہوا ہے۔ اور گدڑی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے۔ استاد شاگرد سے پوچھتا ہے کہ تو سویا کیوں نہیں؟ شاگرد سچ تو بتانا نہیں چاہتا تھا ۔ اور جھوٹ کے لہجے میں چغلی موجود ہوتی ہے۔ بولا کہ خوفزدہ ہوں استاد نے پوچھا کہ خوفزدہ کس چیز سے؟ شاگرد نے جواب دیا کہ گھنا جنگل ہے ۔ دور دور تک آبادی نہیں خوف محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں ڈاکو نہ ہمیں لوٹ لیں۔ استاد نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ ڈاکوئوں کو ہم سے بھلا کیا کام؟ دمڑی ہمارے پاس نہیں تو سو جا۔ مگر شاگرد کی آنکھیں تو جاگتے ہوئے سپنے بن رہی تھیں۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور ۔ استاد سو کر جاگا تو کیا دیکھا کہ شاگرد پہلے کی مانند ہوشیار ۔ استاد کو بڑا اچنبھا ہوا ۔ بہرحال صبح کو دونوں نے دوبارہ سفر شروع کیا تو شاگرد تیز تیز قدم اٹھاتا جائے اور کہتا جائے کہ جلدی شہر پہنچتے ہیں کہیں ڈاکو نہ آ جائیں۔ استاد سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کچھ وقت گزرا تو ایک نہر آئی ۔ استاد بولا کہ جا ہاتھ منہ دھو لے۔ شاگرد گدڑی بھی ساتھ لیجانے لگا تو استاد بولا میں ہوں نہ تو اس کو چھوڑ جا۔
شاگرد کے جاتے ہی استاد نے گدڑی میں ہاتھ ڈالا تو سونے کی اینٹ برآمد ہوئی۔ جو استاد نے نہر میں پھینک دی اور اس کی جگہ دوسرا پتھر رکھ دیا۔ شاگرد جلدی جلدی واپس آیا ۔ گدڑی اٹھائی اور تیز تیز چلنے لگا۔ جب کچھ وقت گزر گیا تو استاد نے شاگرد کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا جس کی طلب میں تو قدم تیز اٹھا رہا ہے اور بیقرار ہے وہ تو میں پھینک آیا ہوں۔ شاگرد نے جلدی سے گدڑی میں ہاتھ ڈالا تو پتھر ہاتھ آئے۔ شاگرد ادھر ہی بیٹھ گیا اور بولا استاد آپ نے بہت بڑا احسان کیا ۔ جب سے سونا ہاتھ آیا تھا تصورات نے چین و سکون لوٹ لیا تھا۔ آرام غارت ہو گیا تھا۔ جب تک یہ ساتھ رہتا کسی کل چین نہ ملتا۔ پاکستان میں حزب اختلاف کی گدڑی میں بھی قبل از وقت انتخابات اور غیر آئینی حل کو داخل رکھا گیا ہے اور اس امید میں کہ یہ سونا بازار میں ہمارے خوابوں کی قیمت ہو گا۔ سنبھال سنبھال کر رکھا جا رہا ہے۔ پاناما لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد دم توڑتی آرزوئیں بذعم خود جلا پا رہی ہیں۔ حالانکہ پانامہ لیکس کے بعد سیاسی قوتوں کے پاس ایک دفعہ پھر یہ موقع آیا ہے کہ جیسے وہ انتخابی قوانین کو بہتر کرنے کی غرض سے پارلیمنٹ میں زورو شور سے مصروف ہیں اسی طرح مالی معاملات کی درستگی کی غرض سے قانون سازی کی جانب بڑھا جائے۔ پانامہ لیکس کے بعد آف شور کمپنیوں کا بہت شور مچایا جا رہا ہے۔ حالانکہ کسی پاکستانی کا پانامہ میں وہاں کے قوانین کے تحت کاروبار کرنا کوئی جرم نہیں۔ جہاں تک یہ بات رہی کہ رقم غیر قانونی ہے تو غیر قانونی رقم سے تو ملک میں بھی کاروبار کرنا جرم ہے۔ چنانچہ ثابت یہ کرنے کی ضرورت ہے کہ رقم غیر قانونی ہے۔ کیونکہ صرف پانامہ میں آف شور کمپنیوں کا ہونا کوئی جرم نہیں۔ اور یہ مطالبہ تو کسی صورت درست نہیں کہ کسی خاص فرد یا خاندان کو تختہ مشق بنایا جائے۔ جیسے کسی کو خصوصی رعایت دینا مناسب نہیں اسی طرح کسی کو تحقیقات کے لئے مخصوص کر لینا بھی درست نہیں ہو گا۔ یہ امر بالکل قابل فہم ہو گا کہ اس حوالے سے ایسی قانونی سازی کی جائے کہ پاکستانی شہری اپنے تمام اثاثوں کو ظاہر کرنے کا پابند ہو اور وہ اپنے تمام ذرائع آمدن کے متعلق مکمل معلومات فراہم کرے ۔ دنیا میں عدالتی کمیشن قائم کئے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ابھی ماضی قریب میں جب تحریک انصاف کے پر زور مطالبے پر 2013کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ نے تحقیقات کی اور ان تحقیقات کے نتائج جاری کئے تو حزب اختلاف نے سپریم کورٹ کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے اس پر تابڑ توڑ حملے کر دیئے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا تھا بلکہ ان کے مطالبے پر عدالتی کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مگر بعد میں وہ طوفان بدتمیزی مچا کہ ملک کے انصاف فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے کے وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اگر دوبارہ کسی کی ضد کی وجہ سے سپریم کورٹ کو اس معاملے کی تحقیقات کی غرض سے گھسیٹا گیا اور آرزوئیں پوری نہ ہوئیں تو دشنام طرازی کی نئی لہر سے سپریم کورٹ کو پالا پڑے گا۔ لہٰذا اس معاملے میں سپریم کورٹ کے وقار کو محفوظ رکھنے کے لئے مناسب قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ اس معاملے کو بیچ میں چھوڑا نہیں جا سکتا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے تحت یا آزاد حیثیت کے طور پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک سرکاری افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے۔ کہ جس میں آدھےاراکین حزب اختلاف جبکہ آدھے حزب اختلاف نامزد کرے۔
اس تحقیقاتی ٹیم کی نگرانی ایک پارلیمانی کمیٹی کرے کہ حکومت جس سے مداخلت نہ کر سکے۔ اور ان دونوں کی کارروائی کو میڈیا کے چیدہ چیدہ نمائندوں کی موجودگی میں کیا جائے جو دوران تحقیق اس حوالے سے میڈیا پر کوئی گفتگو نہ کرنے کے پابند ہوں۔ ویسے ایک حقیقت بیان کرتا چلوں کہ اس کے نتائج بھی2013ء کے انتخابات کو جانچنے والے کمیشن کی مانند ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شاگرد کی گدڑی میں اقتدار کا خواب رکھ دیا گیا ہے۔ جب تک یہ تصور رفع نہیں ہوتا کہ غیر جمہوری طریقے سے حکومت کو چلتا کیا جا سکتا ہے۔ شاگرد بے کل ہی رہیگا۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ خواب شاگرد کو دکھائے کس نے ہیں۔ کوئی اس کو بھی تو روکے؟



.
تازہ ترین