• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عنبر عابد

اکثر یوں بھی ہوا ہے کہ خود سے خود ہی ملنے کا موقع نہیں ملتا۔ غم روزگار، امورِ خانہ داری اور معاصرین کے رکھ رکھائو اور سماجی ذمہ داریوں کے درمیان میں کب اور کتنے حصوں میں بٹ گئی، مجھے پتہ ہی نہ چلا۔

ابھی کچھ دن ہوئے...... اسکول کی چھٹیاں ہوگئی ہیں۔ شدید گرمی کا عالم ہے۔

ان چھٹیوں کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت دنوں سے بکھری ہوئی گھریلو اشیاء اپنی جگہ پر آگئیں۔ کچھ پھیلاوے سمٹے اور کچھ گھر کی حالت سنبھل گئی۔

کچھ فرصت ہوئی تو لکھنے پڑھنے کا بھی خیال آیا۔ کتابوں سے سجی میری الماری یاس و حسرت سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میری توجہ طلب کر رہی تھی۔

آج بچے گھر پر نہیں..... سوچا آج اس الماری کو پھر آراستہ کروں۔ کچھ پرانے رسالے اور کاغذات چھانٹ کر علیحدہ کردوں اور کتابوں کو ایک نئی ترتیب دوں، مجھے لگتا ہے ہر کتاب مجھ سے نظر انداز کیے جانے کی خاموش شکایت کر رہی ہے۔ اُف یہ گرد...... اس کا کوئی علاج نہیں۔ یہ بھی ٹھیک اسی طرح نہ چاہتے ہوئے بھی گھر میں داخل ہوجاتی ہے، جیسے ذہن میں بلا ارادہ خیالات کا ہجوم۔

گرد آلود کتابوں کو صاف کرتے ہوئے میں انہیں گویا سہلا رہی ہوں، جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو اپنے لمس کا احساس کراتی ہے۔ یہ کتابوں کے نیچے بچھا ہوا پرانہ اور بوسیدہ اخبار ہے میں نے اسے بدلنے کی سوچ کے ساتھ ساتھ ہٹایا تو اس کے نیچے تہہ کیے ایک چار تہہ کے کاغذ پر میری نگاہیں ٹھہر گئیں۔

یہ..... یہ تو ایک خط ہے۔ جو کبھی میری خالہ زاد بہن نے مجھے لکھا تھا۔18 سال قبل لکھا گیا یہ خط ...... جس میں اُن دنوں کا منظر یہاں وہاں بکھرے پڑے ہیں جب ہم اسکول میں ہوا کرتے تھے۔

ساون کے میلے اور جھولوں کاذکر، املی کے کھٹے میٹھے کٹاروں کا ذکر، عید کے کپڑے، چوڑیوں اور مہندی کے اُن ڈیزائنوں کا ذکر جو بڑی مہارت سے تیلی سے ہتھیلی پر سجائے جاتے تھے۔ ان تمام تذکروں کے ساتھ اس چھوٹے سے صفحہ میں بڑی بڑی فکریں بھی درج ہیں۔ گڑیا کی شادی اور اُس کے جہیز کی فکر، امتحانات کی تیاری اور خالہ جان کی ناساز طبیعت کی فکر۔ چھت سے ٹپکتے ہوئے پانی کی فکر، غرض یہ کہ اس جادوئی صفحہ کی چار تہوں نے زمانوں کو سمیٹ رکھا ہے۔

میں ان چار تہوں میں قید ہوگئی ہوں......اور حال سے ماضی کا سفر کچھ ہی منٹوں میں طے ہوگیا ہے۔کہاں گئے میرے شب و روز..... میرے پیارے اور مہربان ابو..... بڑا سا آنگن....نیم اور امرود کے وہ درخت۔ اُسی آنگن میں انگور کے بیل تلے باند کے پلنگ پر بال سکھاتی یہ میں ہی تو بیٹھی ہوں۔سل پر مسالہ پیسنے کی آواز آرہی ہے۔ 

آنگن میں کھلے موگرے کے پھولوں کی مہک میں اپنے اندر جذب کر رہی ہوں۔ باہر سے چوڑی لے لو، چوڑی لے لو کی آواز آرہی ہے۔ سامنے ہی جھولے پرچھوٹی بہن بیٹھی آہستہ آہستہ اپنی گڑیا کو تھپک کر سلا رہی ہے۔ باورچی خانے سے اُٹھتا ہوا دھواں فضا میں تحلیل ہو رہا ہے۔ شاید لکڑیاں گیلی ہیں۔ یہ دھواں میری آنکھوں میں چبھ رہا ہے۔

اچانک ہوا کے ایک تیز جھونکے نے میرے کھلے بال اُڑا دیے ہیں۔ میں اپنے بال سمیٹ لینا چاہتی ہوں اور آنکھوں میں چبھتے دھوئیں سے آئی ہوئی نمی کو بھی پلکوں سے پونچھ دینا چاہتی ہوں۔ میرے ہاتھ میری آنکھوں تک جاکر رُک سے گئے ہیں۔

میں اپنی آنکھوں کے گرد محسوس کر رہی کچھ لکیریں۔ جو وقت نے عمر کے خراج میں مجھ کو عطا کی ہیں۔ میں انگلیوں کی پوروں سے انہیں محسوس کر رہی ہوں۔ یہ لکیریں سرحدوں کی طرح میرے ماضی اور حال کے درمیان حائل ہیں، جس کے اُس طرف آنگن میں میرا بچپن بکھرا پڑا ہے۔ میں چاہ کر بھی اِس سرحد کے اُس طرف اب نہیں جاسکتی۔

اب سرحد کے اس طرح ہوں میں! کتنے آگے نکل آئی ہوں میں۔ حصولِ تعلیم کی چاہ، معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام، زندگی کی ذمہ داریوں کے بیچ جھولتا میرا بکھرا وجود جو برسوں سے خود اپنے آپ سے نا آشنا ہے۔ لیکن ان چار تہہ سے نکل کر چولہے کا وہ دھواں میری آنکھوں سے دل میں اُتر رہا ہے۔

لیکن سرحدوں کی کھنچی ہوئی بے رحم دیواروں کو آنسو کب بہا سکے ہیں۔

سرحدیں چاہے کسی ملک کی ہوں یا عمر کی سرحدیں تو سرحدیں ہیں۔

تازہ ترین