• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا کورونا وَبا کے بعد اوپن کچن کانسیپٹ بدل رہا ہے؟

سیلج ہیمر کا شمار امریکا کے نمایاں انٹیریئر ڈیزائن اداروں میں ہوتا ہے۔ اس ادارے نے ریکارڈ تعداد میں امریکی گھروں کی ری ماڈلنگ کی ہے۔ سلیج ہیمر کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ادارے نے سب سے زیادہ گھر کے جس حصے کی ری ماڈلنگ کی ہے، وہ باورچی خانہ ہے۔ اس عرصہ میں انھوں نے گھر مالکان اور ڈیویلپرز کی فرمائش پر کئی بند یا علیحدہ باورچی خانوں کی درمیانی دیواریں توڑ کر انھیں اوپن کانسیپٹ باورچی خانوں میں بدلا ہے۔

اوپن کچن کانسیپٹ سے مراد ایک ایسا گھر ہے، جہاں لیونگ روم، فیملی روم اور ڈائننگ روم کے درمیان کوئی چھوٹی یا بڑی دیوار نہیں ہوتی اور سارا فلور ایک ہوتا ہے، اس جگہ کو عموماً ’’گریٹ روم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اکثر خاندان ایک بڑے فلور پر مشتمل گھر کو پسند کرتےہیں، کیوں کہ ان کے خیال میں گھر کی اس طرح کی سیٹنگ سب کے ایک ہونے اور مل جل کر رہنے کا احساس پیدا کرتی ہے۔ ساتھ ہی، یہ تصور کہ ’’باورچی خانہ کام کی ایک علیحدہ جگہ ہوتی ہے‘‘ بھی ختم ہو چکا ہے اور اب گھر میں کھانا پکانے، تفریح حاصل کرنے، کام کرنے، کھانے، ہوم ورک کرنے، ٹیلی ویژن دیکھنے اور سکون کرنے کے لیے ایک ہی بڑے فلور کا استعمال کیا جاتا ہے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران، کووِڈ-19کے باعث لاگو ہونے والے لاک ڈاؤن کے نتیجےمیں خاندان کے افراد تمام وقت گھر پر گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ، کووِڈ-19سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد یہ ممکن ہے کہ اب خاندان اپنے گھروں کے اوپن کانسیپٹ لے آؤٹ کو ایک نئے زاویے سے دیکھیں۔ واشنگٹن میں کام کرنے والے آرکیٹیکٹ، نکولس پوٹس کہتے ہیں کہ اب وہ کئی باورچی خانوں کی ایسی دیواریں ازسرِنو تعمیر کررہے ہیں، جنھیں کئی برس پہلے انھوں نے خود توڑا تھا۔

’’اوپن کانسیپٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت صفائی رکھنا پڑتی ہے، آپ استعمال کیے ہوئے برتنوں کو اسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے، کیونکہ سب کی نظریں ہر وقت گندے برتنوں پر پڑتی رہیں گی جس سے افراتفری کا احساس ہوتا ہے۔ اس سے بڑی عیاشی اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کو باورچی خانے میں رکھے ہوئے گندے برتن اور بچا کھچا کھانا وغیرہ کبھی نظر نہ آئے‘‘، نکولس کہتے ہیں۔

’’اب کووِڈ-19وَبا کے باعث چونکہ لوگ زیادہ سے زیادہ گھروں سے کام کررہے ہیں اور وہ گھروں کو ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر دیکھتے ہیں، اب گھروں اور کمروں سے ان کی ضروریات مختلف ہوگئی ہیں‘‘، ایسا کہنا ہے نیویارک ڈیزائن اسٹوڈیوکی شریک بانی کیرن ریچر کا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ، ’’میں نہیں سمجھتی کہ یہ ضروری ہے کہ ہم دوبارہ سے مکمل طور پر علیحدہ باورچی خانوں کی دنیا میں داخل ہوجائیں لیکن یہ ضرور ہوگا کہ اب لوگوں میں ’’گریٹ روم‘‘ کی خواہش ضرور کم رہ جائے گی۔ اوپن پلان انٹیریئر میں سب سے بڑ ا مسئلہ شور کو قابو میں رکھنا ہوتا ہے، اور اب جب ہر شخص اپنا دفتری کام زیادہ سے زیادہ گھر سے کررہا ہے، تو ہر شخص کو تھوڑی سی پرائیویسی چاہیے‘‘۔

ایک اور انٹیریئر ڈیزائنر جانیکا کوسٹا اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’’کووِڈ-19کے بعد لوگوں کو گھروں میں پرائیویسی درکار ہے۔ کئی لوگوں کو شور سے دور ذہنی سکون اور توجہ کے ساتھ کام کرنا پڑرہا ہے، ایسے میں اوپن فلور باورچی خانہ ابھی بھی سب کی پسند ہے لیکن لوگوں کو اس میں کچھ تبدیلیاں لانے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ اب انھیں تھوڑی سی سیپریشن چاہیے ہوتی ہے، تاکہ جب گھر کے متعدد افراد اپنے اپنے کام نمٹانے میں مصروف ہوں تو انھیں ایسا محسوس نہ ہو کہ کوئی ان کے کام کرنے کے عمل میں دخل اندازی کررہا ہے یا اس پراثرانداز ہورہا ہے‘‘۔

کچھ اِنٹیریئر ڈیزائنرز کو لگتا ہے کہ وہ فی الحال باورچی خانہ اور گھر کے دیگر حصوں کے درمیان دیوار کھڑی کرنے والے نہیں ہیں۔ ’’اوپن کانسیپٹ فلور ختم نہیں ہونے جارہا کیوں کہ اب ہمارے رہن سہن کے انداز بدل گئے ہیں‘‘، ایسا کہنا ہے امریکی ریاست نیش وِل میں کام کرنے والے ادارے کانسینٹینو ڈیزائن الائنس کے رکن رچرڈ اینسکیویکس کا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ، ’’حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ اوپن فلور باورچی خانے، نمایاں ہونے کے باعث گھر کے ہر کونے سے نظر میں رہتے ہیں، جس کے باعث ایسا لگتا ہے کہ پورے گھر میں ہر طرف کھانا بن رہا ہو‘‘۔

ایک اور انٹیریئر ڈیزائن ینگ ہو کہتے ہیں کہ، ’’جب اوپن فلور باورچی خانہ ہوتا ہے تو گھر کے افراد کو لگتا ہے کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہیے۔ جس زمانے میں بند باورچی خانہ ہوتا تھا، اس وقت یہ رسمی بات تھی کہ تین وقت ہی کھانا ہے اور درمیان میں کوئی ایک آدھا اسنیک کھا لیا جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اوپن فلور پلان جہاں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، وہ ہے ویکیشن ہوم۔ ویکیشن ہوم کا مقصد ہی ایک ساتھ وقت گزارنا اور مذاق مستی کرنا ہوتا ہے‘‘۔

تازہ ترین