یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے‘ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی سزائے موت کے قیدیوں کے سیل میں تھیں۔
اڈیالہ جیل میں دونوں سے ملاقات کی تو انہوں نے جس محبت و پیار سے میری آمد کا خیر مقدم کیا، میں اس کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا۔ مشکل وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے میری نواز شریف سے دوستی 4عشروں پر محیط ہے۔
ان سے تعلق میں جو رکھ رکھائو ہے اس کا خیال رکھتے ہوئے بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض اوقات ان سے تلخ سوالات بھی کر لیتا ہوں ۔ نواز شریف نے میرا ہاتھ تھام رکھا تھا میں نے ان پر سوال داغ دیا ’’ میاں صاحب ! چوہدری نثار علی خان سے ناراضی کی آخر وجہ کیا ہے؟‘‘ میں نے ان کے چہرے پر اپنی نظریں جما رکھی تھیں ان کے چہرے پر ردعمل دیکھنا چاہتا تھا لیکن انہوں نے میرے سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور یہ کہہ کر’’ اس موضوع پر پھر کسی وقت بات کریں گے‘‘ خاموش ہو گئے۔
مجھے ان سے دوبارہ بات کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی اس بات کا حوصلہ کہ دوبارہ ان سے اس معاملہ پر بات کروں۔ میں نے چوہدری نثار علی خان سے بھی بار ہا یہی سوال کیا ہے وہ بھی اس معاملہ پر کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں اور یہ کہہ کر طرح دے دیتے ہیں کہ بہتر ہے یہ سوال نواز شریف سے ہی کریں۔
بہر حال میں پچھلے تین سال سے اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں لیکن مجھے اس کا جواب نہیں مل پا رہا۔ اب چوہدری نثار علی نے تین سال کا ’’چپ کا روزہ‘‘ توڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ 24 مئی2021ء کو پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے۔
سیاسی حلقوں کے لئے یہ چونکا دینے والی خبر ہے۔ چوہدری نثار علی خان کی’’ خاموشی‘‘ کے پیچھے ایک طوفان کھڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے پورا ملک بند گلی میں آن پہنچا ہے اگر وہ کوئی بات کریں گے تو یقیناً ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہو جائے گی چوہدری نثار علی خان کے حلف اٹھانے سے اقتدار کے ایوانوں اور اپوزیشن کے ’’ڈیروں‘‘پر کھلبلی مچ جانا فطری امر ہے۔چوہدری نثار علی خان کے پنجاب اسمبلی کے رکن کے حلف اٹھانے بارے ’’بیانیہ‘‘ میں اچانک ’’یوٹرن‘‘ باعث حیرت ضرور ہے لیکن میں بار ہا یہ بات لکھ چکا ہوں سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی سیاست میں دو جمع دو چار نہیں ہوتے‘ کبھی پانچ بھی ہو جاتے ہیں۔
بات چوہدری نثار علی خان کی ہے تو ان کی ایک نشست ہے وہ بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے 34 ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیتی ہوئی اور اتنی ہی اکثریت سے ان کو قومی اسمبلی کی نشست پر ہروا دیا گیا‘ ان کی قومی اسمبلی کی نشست کا تین روز بعد رزلٹ دیا گیا۔ چوہدری نثار علی خان نے پچھلے تین سال سے یہ موقف اختیار کر رکھا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے 25جولائی 2018ء کے ’’جھرلو انتخابات‘‘ کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہے سو انہوں نے مقتدر حلقوں کی جانب سے کی جانے والی پرکشش پیش کشوں کو قبول نہیں کیا۔
اب ان کے پاس کیا مضبوط دلائل ہیں کہ چکری کے بلند وبالا تاریخی چوبارے میں بیٹھ کر اپنے گروپ سے طویل مشاورت یا کسی اہم شخصیت کے فون کے بعد پنجاب اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ ہفتہ عشرہ کے دوران میری چوہدری نثار علی خان سے دوتین بار ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے انہوں نے اپنے موقف میں تبدیلی کے بارے میں مجھے قائل کرنے کی کوشش کی ممکن ہے میں ان کے نئے’’ بیانیہ ‘‘ کا قائل ہو جاتا لیکن پنجاب اسمبلی میں جہانگر ترین گروپ کے قیام اور عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی افواہوں میں چوہدری نثار علی خان کا حلف اٹھانا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔
آخر وہ کون سا ’’پیغام‘‘ تھا جس نے چکری کے راجپوت کو ’’تگڑا‘‘ ہونے کا کہا اور میدان میں اترنے کی ترغیب دی۔ چوہدری نثار علی خان کے ایک دیرینہ ساتھی شاہین اکبر خان کا کہنا ہے وہ جس چوہدری نثار علی خان کو جانتے ہیں‘ وہ تین سال کی ’’تپسیا‘‘ کے بعد صرف پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
وفاقی کابینہ نے پارلیمان کے منتخب ارکان پر مقررہ مدت میں حلف نہ اٹھانے پر ’’ڈی سیٹ‘‘ کر دینے کے صدارتی آرڈیننس کی منظوری دے دی ہے۔ شاید حلف اٹھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پی پی- 10 کو اپنے سیاسی مخالفین کے لئے میدان جنگ نہیں بننے دینا چاہتے۔
سر دست پنجاب میں سیاسی منظر تبدیل کرنے کی کوئی تحریک نہیں لیکن سیاسی حلقوں میں جہانگیر ترین کے وفاق اور پنجاب میں قائم کردہ فارورڈ بلاکس کا بڑا چرچا ہے۔ اگرچہ جہانگیر ترین محتاط انداز میں اپنا کھیل کھیل رہے ہیں وہ پارٹی کے ساتھ وفاداری کا دم بھر رہے ہیں لیکن وہ بھی راولپنڈی سے ’’سیٹی‘‘ بجنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اگر سیٹی نہ بجی تو پھر تبدیلی کے حوالے سے تمام باتیں محض مفروضہ ہوں گی۔ چکری کا راجپوت گہرا سیاست دان ہے تاش کے تمام پتے اپنے سینے سے لگائے رکھتا ہے اگر کوئی کھیل ہے تو پھر اس کے سوا کسی کو علم نہیں۔ چوہدری نثار علی خان کو وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچانے میں جہاں مقتدر حلقوں کا رول ہو گا وہاں لندن نشین مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کی آشیر باد لازمی امر ہے۔
ممکن ہے میاں شہباز شریف وفاق اور پنجاب میں تبدیلی کے پلان کا حصہ بننے کے لئے لندن جانا چاہتے ہیں پچھلے دنوں میاں نواز شریف نے میری والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کے لئے ٹیلی فون کیا تھا لیکن میں نے اس موقع پر بھی ان سے چوہدری نثار علی خان سے معاملات درست کرنے کا مشورہ دیا تھا اور کہا کہ دونوں کے درمیان صلح پارٹی اور ان کے لئے نیک شگون ہو گی تو انہوں نے صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی ’’ﷲ تعالیٰ خیر کرے گا ‘‘۔
لہٰذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ چوہدری نثار علی خان بارے لندن سے قبولیت کے بغیر ’’تخت لہور‘‘ پر بیٹھنا ممکن نہیں۔ بہرحال ان کے حلف اٹھانے سے کھیل ختم نہیں بلکہ کھیل شروع ہو گا جس کا انجام کسی کو معلوم نہیں۔