• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میری بیٹی کی شادی ہے، مدد کر دیں‘‘، یہ وہ جملہ ہے جو آپ میں سے اکثر ساتھی آئے دن سنتے ہیں۔ حالات ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ غریب تو بےچارہ مجبور ہوتا ہے کیوں کہ اگر پیسہ نہیں ہوگا تو بیٹی کی شادی نہیں ہوگی۔ سفید پوش طبقے کی بھی یہی مجبوری ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی بیٹی کی شادی کے لئے ادھار تک لینے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں۔ امراء رئوسا کے لئے تو شادی کا یہ موقع شو آف کرنے کے لئے بہترین ہوتا ہے۔ پہلے تو شادیاں مہندی، برات اور ولیمہ تک محدود ہوتی تھیں اب نجانے کیا کچھ اور شادی تقریبات میں شامل ہو چکا اور کئی کئی دن تک شادی کی تقریبات جاری رہتی ہے اور حالات کچھ ایسے ہو چکے کہ شادی کی تقریبات میں اضافہ بیٹی والوں کے لئے زیادہ ہوا۔ اب تو شادیاں ہر لیول پر اس لئے بھی اہمیت اختیار کر چکیں کہ ان کے ذریعے بہت سے لوگ دوسروں کو یہ ثابت کرنے بلکہ متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ میری کتنی جان پہچان ہے۔ کس شادی میں کتنے وزیر آئے، کتنے مشیر آئے، کون کون سے سیاسی رہنما، جرنیل اور دوسرے لوگ جن کو دنیا جانتی ہو۔ اب تو ٹی وی اینکرز اور ایسے صحافی جن کو ٹی وی کے ذریعے لوگ جانتے ہیں، وہ بھی اس لسٹ میں شامل ہو چکے جو شادی کے فنکشن کو کامیاب بنانے یعنی شادی میں شریک مہمانوں، رشتہ داروں کو یہ تاثر دینے کے لئے کہ ’’دیکھا میرے کتنے تعلقات ہیں‘‘ اُن مہمانوں کو مدعو کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ یعنی شادیاں دکھاوا بن چکیں، ان کو شو آف کا ذریعہ بنا دیا گیا۔ میں کسی ایک نہیں کئی اشخاص کو جانتا ہوں جو ادھار لے کر شادیاں کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو وی آئی پی مہمانوں کو اپنی شادیوں میں بلانے کے لئے سفارشیں تک کرواتے ہیں۔ منتیں ترلے بھی کیے جاتے ہیں۔ یعنی سب دکھاوا اور اس دکھاوے میں ظاہری طور پر ’’بڑے بڑے‘‘ لوگ سب سے آگے ہیں۔ گویا ہم نے ایک کلچر بنا دیا، ہم ایک ایسے راستے پر چل پڑے ہیں کہ جس پر چل کر ہم نے شادی بیاہ کو اور مشکل بنا دیا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان غریب، سفید پوش اور درمیانے طبقے کو پہنچ رہا ہے۔ سب دکھاوا کرنے کے لئے مجبور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ’’میری بیٹی کی شادی ہے، مدد کریں‘‘ یا ’’ادھار دے دیں‘‘ والی بات آپ کو اکثر سننے کو ملتی ہے۔

اگرچہ مجھے ایسے لوگ بھی ملے جنہوں نے کہا کہ بیٹے کی شادی کرنی ہے، مدد کر دیں لیکن بیٹی والوں کی بہت بڑی تعداد ایک ایسے رواج کے آگے بےبس ہو چکی جس کا تعلق ہندو کلچر سے ہے اور جس نے دکھاوے کی دوڑ کی وجہ سے شادی کو ہی مشکل بنا دیا۔ جہیز اس مشکل میں مزید اضافہ کرتا ہے اور اچھے خاصے پیسے والے لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ اُن کی بہو اپنے ساتھ جہیز لائے گی۔ جہیز کی لسٹ بھی کئی شادیوں میں پڑھی جاتی ہے، اس لسٹ میں شادی میں شامل افراد کو باقاعدہ پڑھ کر یہ بتایا جاتا ہے کہ بیٹی والوں نے بیٹی کو جہیز میں کیا کیا دیا۔

ہم مسلمان ہیں لیکن ہم ایک ایسے کلچر کو رواج دے رہے ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام میں تو نکاح اور ولیمہ ہیں۔ ولیمہ شادی کرنے والے مرد کی ذمہ داری ہے اور اُسے اپنی استطاعت کے مطابق مہمانوں کو بلانا چاہئے۔ لڑکی والوں کے لئے تو کوئی پریشانی نہیں، کوئی خرچہ نہیں۔ بلکہ شادی کرتے وقت لڑکی سے جہیز ڈیمانڈ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کے شوہر کو اپنی استطاعت کے مطابق اُسے مہر ادا کرنا ہے۔ پھر ’’بیٹی کی شادی ہے، مدد کردیں‘‘ کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے، اس کی وجہ وہ غلط رسوم و رواج ہیں جن کا میں نے کالم میں اوپر ذکر کیا۔ ان کو ختم ہونا چاہئے جس کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکی والوں کو اس پریشر سے آزاد کرنا ہوگا کہ اُنہیں برات کے لئے شادی کی تقریب اور کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے اس کے علاوہ اپنے عزیر رشتہ داروں کو بھی بلانا ہے۔ اور اس کے بعد جہیز بھی بچی کو دینا ہے۔ یہ سب غلط ہے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی بڑی تعداد دکھاوے کے لئے یہ سب تو کرتی ہے یعنی بیٹی کی شادی دھوم دھام سے، برات کے لئے زبردست تقریب، جہیز تا کہ لوگ متاثر ہوں لیکن بیٹیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق وراثت میں اُن کا حق نہیں دیا جاتا۔ بیٹیاں اور بہنیں بےچاری تو وراثت میں اپنا حصہ مانگنے سے بھی ہچکچاتی ہیں جو کہ اُن کا ایسا حق سے جس کے بارے میں اسلامی احکام موجود ہیں۔ اگر کوئی وراثت میں حصہ مانگ لے تو بھائی، باپ ناراض ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنے حق کے لئے عدالت چلی جائے تو پھر اُسے ایک ایسے نظام کے خلاف لڑنا پڑتا ہے جو تمام تر قوانین کے ہوتے ہوئے اُس کا ساتھ نہیں دیتا۔ ان حالات کو درست کرنا ہے تو ’’میری بیٹی کی شادی ہے، مدد کریں‘‘ کے سوال کے خاتمہ کے لئے ایک تو جو لوگ افورڈ کر سکتے ہیں، اُنہیں اپنی بیٹیوں کی شادی پر اپنے آپ کو صرف سادگی سے نکاح تک محدود کرنا چاہئے۔ کوئی غریب یا سفید پوش بیٹی کی شادی کے لئے پیسہ مانگے تو اُسے یہ تعلیم اور ترغیب دیں کہ بیٹی کی شادی پر تو اُس پر کوئی بوجھ ہی نہیں تو پھر دکھاوے کے لئے ادھار یا امداد کا پیسہ کیوں مانگا جا رہا ہے؟ ریاست، میڈیا، علماء اور ایسے افراد جن کو لوگ جانتے ہیں، اُنہیں سنتے ہیں اُنہیں نہ صرف شادی کے لئے تقریبات کو نکاح اور ولیمہ تک محدود کرنے کی ترغیب دینی چاہئے بلکہ جب اپنی باری آئے تو ایسا ہی کرنا چاہئے تا کہ دوسرے لوگوں کی اچھے کام کے لئے حوصلہ افزائی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر عورت کو وراثت میں اُس کا حق بغیر مانگے اور بغیر کسی مشکل کے ملے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین