اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خطاب پر یہاں ملتان میں ان کے حامیوں نے تعریف وتوصیف کے پل باندھ لئے اور کہا کہ ملتان کے سپوت نے یہ ثابت کردیا ہےکہ وہ جرات مندانہ موقف کو بیان کرنے کی پوری طاقت رکھتے ہیں ،ایک طویل عرصہ کے بعد شاہ محمود قریشی کے حامیوں کو ایک بڑا جواز فراہم ہوا ہے کہ جس پر وہ اپنے لیڈر کی شخصیت کو کھل کر خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔
ملتان میں بھی فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں اور ان ریلیوں میں بھی شاہ محمود قریشی کی بڑی بڑی تصویریں ان کے حامیوں نے اٹھا رکھی تھیں ،پہلی بار فلسطین کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں میں سرکاری افسران نے بھی شرکت کی اور کمشنر ، ڈپٹی کمشنراور دیگر افسران ریلیوں میں سیاسی کارکنوں اور عوام کے ساتھ شریک ہوئے ،شاہ محمود قریشی کے لئے یہ ایک بہت بڑا ریلیف ہے ،جو انہیں ایسے موقع پر ملا ہے ،جب جہانگیر ترین گروپ کے حوالے سے انہیں تنقید کا سامنا تھا۔
جہانگیر ترین گروپ کے جن ارکان اسمبلی کی وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ملاقات میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے اور آئندہ ہم خیال گروپ کے اراکین کو نظرانداز نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ،مگرشاہ محمود قریشی جس طرح اپنی تقریروں میں جہانگیر ترین گروپ کے ارکان پر تنقیدی وارکرتے رہے اور انہیں سخت لفظوں میں وارننگ دیتے رہے ،کیا وہ بھی ان ارکان سے معذرت کریں گے ،یا وہ اپنی اقوام متحدہ کی پرفارمنس کے ذریعے اس معاملہ سے بچ کر نکل جائیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے جانے سے پہلے شاہ محمود قریشی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جہانگیر ترین سے کو ئی لڑائی نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے کوجپھی ڈال کر اپنے تمام تر اختلافات ختم کرچکے ہیں ،یہ بات شاید انہیں اس لئے کہنے کی ضرورت پیش آئی کہ اگلے دن جہانگیر ترین گروپ نے اسمبلیوں میں علیحدہ بیٹھنے کا اعلان کردیا تھااور اس کی شاہ محمود قریشی کو شاید خبر تھی کہ انہوں نے اس کا الزام اپنے سر لینے کی بجائے یہ اعلان کرنا مناسب سمجھا کہ ان کی جہانگیر ترین سے کوئی مخاصمت نہیں ہے۔
بہرحال جہانگیر ترین ہم خیال گروپ نے بظاہر پہلا راؤنڈ جیت لیا ہے اوران کی بات جو پہلے سنی نہیں جارہی تھی اب نہ صرف توجہ سے سنی گئی ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ عملی طور پر ایک ڈپٹی سیکرٹری بھی تعینات کردیا گیا ہے ،جو وزیراعلیٰ ہاؤس میں صرف جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے اراکین کے معاملات کو دیکھے گا ،یہ شاید اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی سیاسی گروپ کو رضامند کرنے کے لئے ایسا بندوبست کیا گیا ہو۔
مگر ذرائع کے مطابق ابھی یہ معاملہ پوری طرح حل نہیں ہوا ،بلکہ یہ کہنا چاہیئےکہ وقتی طور پر سیز فائر ہوا ہے ،اس کے بعد’’ انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے ارکان اپنے مفادات کا تحفظ جاری رکھیں گے ،سب سے بڑی گنجل جہانگیر ترین کو مقدمات سے ریلیف ملنا ہے ،کیونکہ جب یہ ہم خیال گروپ تشکیل دیا گیا تھا ،تو اس کی بنیاد ہی یہی تھی کہ جہانگیر ترین کے خلاف جو مقدمات بنائے گئے ہیں ،وہ ناانصافی ہے اور جب تک انہیں ختم نہیں کیا جائے گا ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان جہانگیرترین کے ساتھ کھڑے رہیں گے ،ابھی اس معاملہ میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوئی۔
جہانگیرترین اور ان کے بیٹے علی ترین کو 31مئی تک عبوری ضمانت میں توسیع مل گئی ہے،دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدمہ میں اگر جہانگیرترین کی ضمانت کنفرم ہوجاتی ہے ،تو سمجھا جائےگا کہ بالآخر وہ مطالبہ مان لیا گیا ہے، جس کے لئے ہم خیال گروپ بنایا گیا تھا ،لیکن اگرایسا نہیں ہوتا ،تو پھر جہانگیر ترین گروپ کہاں کھڑا ہوگا ،کیا لائحہ عمل اختیار کرے گا اور کیا جو کچھ آج کہا جارہا ہے کہ ہم تحریک انصاف میں شامل ہیں اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں ،توکیا اس صورت میں بھی وہ عمران خان اور تحریک انصاف کا ساتھ دیں گے۔ادھر سینٹ میں اپوزیشن لیڈراور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ سینٹ انتخاب میں پی ٹی آئی کے جن ارکان نے انہیں ووٹ دیا تھا ،وہ جہانگیر ترین گروپ سے ہیں ،اگریہ بات درست ہے تو پھر کئی سوالات اٹھتے ہیں ،مثلاًیہ کہ جب وزیراعظم عمران خان نے اعتماد کو ووٹ لیا، تو انہیں ارکان نے ووٹ دے کر انہیں مشکل سے نکالا ،گویا جہانگیر ترین اس موقع پر بھی عمران خان کے کام آئے ،جو ارکان اسمبلی ان کے کہنے پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے سکتے ہیں ،وہ ان کے کہنے پر وزیراعظم عمران خان کو ووٹ نہیں بھی دے سکتے ،یہ گویا ایک اہم انکشاف ہے ،جو جہانگیر ترین کے ہم خیال ارکان اسمبلی کے عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ کسی موقع پر بھی یہ ہم خیال گروپ کوئی بڑی بازی بھی پلٹ سکتا ہے ،سید یوسف رضا گیلانی نے اس موقع پر یہ انکشاف کرکے ایک طرح سے جہانگیرترین کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے ،یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سینٹ کا انتخاب ہورہاتھا ،تو یوسف رضا گیلانی سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ جہانگیر ترین ان کی حمایت کررہے ہیں ،توانہوں نے جواب دیا تھا کہ میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی ہے ،ویسے میری ان سے رشتہ داری ضرور ہے ،یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اندرخانے جہانگیر ترین ،یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور ان کے ہم خیال اراکین ان کے کہنے پر یوسف رضا گیلانی کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔
ان کے خلاف کارروائی کی بجائے عمران خان نے شاید اس لئے یہ موقع دیا تھا کہ وہ تحریک اعتماد میں انہیں ووٹ دے کر اپنی اس غلطی کا ازالہ کریں ۔ سینئر مسلم لیگی رہنما مخدوم جاویدہاشمی کے دامادکے میرج کلب اور کنٹرولڈ شیڈ کو گرانے کا معاملہ خاصہ موضوع بحث بنا ہوا ہے،ملتان انتظامیہ کی قلابازیوں نے اس معاملہ کو مذید سیاسی رنگ دینے میں اہم کردار ادا کیا ،یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ مخدوم رشید ملتان سے سے تقریباً 20 کلومیٹر واقع ایک ٹاؤن کمیٹی ہے ،مخدوم جاوید ہاشمی کے بقول ان کے بعض سخت بیانات کی وجہ سے ان پر یہ نزلہ گرایاگیا ہے ۔