• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستا ن کے صوبہ خیبر پختونخوا میں 6ہزار کے قریب آثارِ قدیمہ کے مقامات (آرکیالوجیکل سائٹس) موجود ہیں مگر صرف چند کو ہی بین الاقوامی سطح پر جانا جاتا ہے۔ کسی بھی خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے آثارِ قدیمہ کسی اثاثہ سے کم نہیں ہوتے۔ صوبے کا صدر مقام ’پشاور‘ ایک قدیم شہر ہے ۔ وسطی اور جنوبی ایشیا کی اہم گذرگاہوں پر واقع یہ شہر ثقافتی لحاظ سے متنوع ہے۔ 

پشاور شہر کسی رومی تماشاگاہ کی مانند پہاڑوں کے ایک غیر منقطع سلسلے سے گھرا ہوا ہے۔ تاریخ کے مطابق اس کا نام پرش پورہ (انسانوں کا شہر) تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ بگڑ کر پشاور بن گیا، ایک زمانے میں اسے باگرام کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ شہر میں قلعہ بالا حصار، قلعہ جمرود، باب خیبر، پشاور میوزیم، اسلامیہ کالج، سیٹھی ہاؤس، ہیریٹیج ٹریل اور مسجد مہابت خان جیسی کئی تاریخی عمارتیں موجود ہیں، جنہوں نے اپنے فن تعمیر سے ایک دنیا کو گرویدہ بنایا ہوا ہے۔

جمرود قلعہ

پاکستان کے قدیم مقامات میں سے ایک تاریخی جمرود قلعہ سیاحوں کے لیے ایک اہم جگہ ہے۔ سکھ فوج کے لیے جمرود کئی لحاظ سے اہم تھا کیونکہ یہاں افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کا راستہ روکا جاسکتا تھا اور یہاں سے افغانستان پر آسانی سے حملے کیے جاسکتے تھے۔ جمرود قلعہ کی تعمیر 1836ء میں سکھ جرنل ہری سنگھ نلوہ نے محض 54دنوں میں چھ ہزار فوجیوں کے ذریعے کروائی۔ اس کا نقشہ قلعہ بالاحصار سے مماثلت رکھتا ہے کیونکہ اس کی مرکزی عمارت کے اطراف بھی حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ 

قلعہ کی دیواروں کی چوڑائی 10فٹ جبکہ اونچائی 30فٹ کے قریب ہے اور ان کی تعمیر میں مٹی اور پتھر کا استعمال کیا گیا۔ اردگرد کے علاقے پر نظر رکھنے کے لیے 12فٹ بلند برج تعمیر کیے گئے۔ ان پر توپیں رکھی گئیں اور ان میں ایسے راستے بنائے گئے جن پر سامان سے لدے ہوئے خچر بآسانی برج تک پہنچ سکیں۔ دو منزلہ جمرود قلعے کی تعمیر اونچے مقام پر کی گئی تاکہ وہاں سے مشرق کی جانب درہ خیبر، شمال میں مہمند اور جنوب میں باڑہ تک کے علاقے نظر آتے رہیں۔

قلعے میں متعدد کمرے تعمیر کیے گئے جن میں سے ایک کمرے کو گردوارہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ جمرود کے علاقے میں موجود ایک چشمے سےقلعے کی تعمیر کے لیے پانی لایاگیا۔ قلعے میں پانی کی ضروریات پوری کر نے کے لیے 400میٹر گہرا کنواں کھودا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ایک زیرِ زمین تالاب بھی بنوایا گیا، جسے بعد میں انگریز سامراج کے دور میں قیدخانے کے طور استعمال کیا گیا ۔ اس قلعے کا نام ویسے تو ’فتح گڑھ‘ رکھا گیا تھا مگر یہ آج تک علاقے کے نام ’جمرود‘ سے ہی پہچانا جاتا ہے۔قلعے کی نگرانی اور انتظام خیبر رائفلز کے پاس ہے۔

شگئی قلعہ

خیبر ایجنسی میں جمرود سے 13کلو میٹر کے فاصلے پر 1927ء میں شگئی قلعہ تعمیر کیا گیا۔ برطانوی افواج نے خیبر پاس کی نگرانی کے لیے اس قلعے کی تعمیر کروائی تھی۔ برطانوی دورِ حکومت میں عام حیثیت سے مشہور یہ قلعہ سطح سمندر سے 847میٹر بلند ہے۔ 

تاریخی درے کے درمیان تعمیر کیے گئے اس قلعے کو بھی آثارِ قدیمہ کے مقامات میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قلعہ پاکستان آرمی اور خیبر رائفلز کے زیرِانتظام اور خیبر رائفلز کا ہیڈکوارٹر ہے۔ پاک فوج، افغان فوج اور نیٹو فورسز کے درمیان اسی مقام پر فلیگ میٹنگز منعقد ہوتی رہی ہیں۔

باب خیبر

جمرود کے مقام پر درہ خیبر کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے جون 1963ء میں شارع پر ایک خوبصورت محرابی دروازہ ’’باب خیبر‘‘ تعمیر کیا گیا۔ یہ سطح سمندر سے 1066میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس دروازے پر مختلف تختیاں بھی نصب کی گئی ہیں، جن پر درہ سے گزرنے والے حکمرانوں اور حملہ آوروں کے نام بھی درج ہیں۔ درہ خیبر تاریخی، جغرافیائی اور محل وقوع کے لحاظ سے بےنظیر ہے۔ اسے برصغیر کا دروازہ کہا جاتا ہے، جو پشاور کے عین مغرب میں واقع ہے۔ 

سلسلہ کوہِ سلیمان، جو کہ کوہِ ہمالیہ کی شاخ ہے، سطح مرتفع سے شروع ہوتا ہے، اس سلسلے کی پہاڑیاں اور وادیاں خیبر پر پہنچ کر ایک ہوجاتی ہیں۔ اصل درہ قلعہ جمرود سے شمال مغرب میں تقریباً تین میل پر شروع ہوتا ہےاور کوئی 23میل طویل ہے۔ درہ خیبر ویران و بےگیاہ اور دشوار و ہموار چٹانوں سے گزرتا ہوا علی مسجد کے قریب آکر رفتہ رفتہ تنگ ہوجاتا ہے اور مناظر بھی یکسر بدل جاتے ہیں۔ اس کے بعد درہ بَل کھاتا ہوا انتہائی بلندی پر لنڈی کوتل کی سطح مرتفع (3,518فٹ) تک جاپہنچتا ہے۔ 

یہاں سے سڑک نشیب کا رُخ کرتی ہے اور شنواری علاقے سے گزرتی ہوئی طورخم پہنچتی ہے۔ اس جگہ ڈیورینڈ لائن (پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی اور بین الاقوامی حد) دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہے۔ جمرود سے اس کا فاصلہ تقریباً 33کلومیٹر ہے۔ پشاور سے کوئی پانچ دس منٹ کی مسافت پر واقع باب خیبر سے کابل جایا جاسکتا ہے۔ باب خیبر ایک ایسی علامت ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بن چکی ہے۔

تازہ ترین