• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ ہفتے پہلے کی بات ہے مجھے ایک کتاب کا تحفہ موصول ہوا۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے اور کچھ ادارے اور کتب خانے کتابوں کے بارے میں رائے بھی طلب کرتے ہیں۔ طلب کا مطلب ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے اور رائے لکھنے کا معاوضہ بھی ملتا ہے۔ بہت سال پہلے جب میں ٹورنٹو میں مقیم تھا ، وہاں کے ایک سرکاری کتب خانہ نے مجھ سے رجوع کیا اور اردو کتب کے بارے میں مشاورت کے لئے میری خدمات سے استفادے کا عندیہ دیا اور یہ تجربہ بھی خوب رہا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک دفتری ملاقات میں ادارے کی اہم رکن سے میں نے پوچھا کہ آپ کتابوں کا انتخاب کیسے کرتی ہیں؟ اس نے مجھے حیرانی سے دیکھا اور کچھ دیر سوچا۔ جب اس کو میرے چہرے پر ندامت کا احساس ہوا تو مسکرائی اور بولی، یہ تو ایک سرکاری راز ہے اور پھر بولی آپ کو راز دار بنایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس کی تاویل اچھی لگی، کہنے لگی کل کی میٹنگ کے بعد اِس پر بات کریں گے۔

یہ خیالات میری یادداشت میں دوبارہ اس وقت نمایاں ہوئے جب میرے دوست انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر حالاتِ حاضرہ پر بھرپور تبصرہ اور مختصر کلپ تیار کرنے والے نیک نام فضل اعوان نے خبر دی کہ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان ناشتہ پر گپ شپ لگانا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے مہربان دوست سے پوچھا کہ ناشتہ ہوگا کہ دعوتِ شیراز ہوگی؟ وہ چپ رہے۔ کافی ہفتے پہلے مجھے اچانک ایک دن ’’ارشاد نامہ‘‘ ملا تو کچھ حیرانی سی ہوئی۔ کتاب بہت دلچسپ تھی اور اس کو کئی دفعہ پڑھا بھی جا سکتا تھا اور جب کتاب ملی تو چند دنوں کے بعد ہی میں نے اس پر تبصرہ تو نہیں کیا اپنے کالم تذکرہ ذکر ضرورکر دیا ۔ میں ’’ارشاد نامہ‘‘ سے مستفید ہوتا رہا اور جب اعلیٰ عدالتوں پر تنقید اور تشہیر کا میڈیا ٹرائل شروع ہوا تو مجھے خیال آیا یہ تمام چیف فارغ ہونے کے بعد لکھتے کیوں ہیں؟ اور یہ سوال اپنی جگہ ابھی بھی موجود ہے۔

مجھے میرے فاضل دوست بتانے لگے کہ سابق اعلیٰ عدلیہ کے جج وقت کے کافی پابند ہیں اور ناشتہ میں اگر تاخیر سے پہنچے تو فقط گفتگو پر گزارا کرنا پڑے گا۔ میں خود بھی جناب ارشاد حسن خان سے ملاقات کا متمنی تھا۔ ایک تو میں دیکھنا چاہتا تھا کہ اعلیٰ عدالت سے رخصتی کے بعد زندگی کیسی اور گزارہ کیسے ہوتا ہے ؟ میں اعلیٰ عسکری اور سرکاری عہدہ داروں کو جانتا ہوں جو ملازمت سے فراغت کے بعد معاشرہ میں اضافی سے لگے۔ ایک تو وہ اپنے سابقہ ماحول کی قید سے آزاد نہیں ہوتے او ر دوسرے ہمارا معاشرہ بعدازاں ان کو وہ اہمیت اور حیثیت نہیں دیتا اور ان پر اکثر بےجا تنقید بھی کی جاتی ہے چنانچہ ایسے لوگ گم نام ہو جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں دو تین ایسے جج حضرات کا خیال ضرور آتا ہے جو اپنے وقت میں نامور ہوئے اور میڈیا کی مدد سے نیک نامی نہیں تو شہرت بہت کمائی مگر ان کے فیصلے عدالت اور قانون کی نظر میں عوام کے لئے دور رس نظر نہیں آتے اور ان کے زمانہ میں ہی عدالتی اوقات میں تبصروں کو اہمیت اور حیثیت ملی جو کہ انصاف اور قانون کے تناظر میں ایک فاضل رد عمل ضرور تھا مگر اس کے اثرات نے بار اور بنچ کو تقسیم کردیا اور وکیل حضرات ان تبصروں کوبھی فیصلوں کی طرح اہمیت دینے لگے ، جس کی وجہ سے فیصلے ہونے کے بعد بھی ان پر عملدرآمد نہ ہو سکا اور جمہوریت کی وجہ سے عدالت کی حیثیت بھی متاثر ہوئی اور لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد اتنا کم ہوا کہ اب توہین عدالت کا معاملہ بھی ایک عام سا مقدمہ لگتا ہے اور تاریخ پر تاریخ لے کر ٹالا جا سکتا ہے۔

وبا کی وجہ سے ہم چار حضرات میں مناسب فاصلہ بھی تھا۔ نشست گاہ کی فضا پر سکون اور خنک تھی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے دوست فضل اعوان کو سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کا خاصا اعتماد حاصل ہے اور گفتگو پہلے سے جاری تھی اور جس مرحلہ پر میں شامل مجلس ہوا ، اس وقت بات جنرل مشرف کے حوالہ سے ہو رہی تھی اور گفتگو خوشگوار اس لئے تھی کہ جج صاحب نے مارشل لا کے تناظر میں ایک ایسا فیصلہ دیا تھا جس کے بعد مشرف کے زمانہ اقتدار کو ملٹری رول کہنا غیر مناسب ہوگا۔ اس نے سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے تناظر میں کام کرنے کا موقع دیا اور عوامی نمائندگان کو پارٹی بنانے اور سیاست میں برداشت کو فروغ دیا۔ جنرل مشرف سے ایک عرصہ تک ہمارے امریکی دوست ناراض بھی رہے مگر نظریہ ضرورت نے ان کی بھی مدد کی اور امریکی مشرف پر اعتماد کرنے لگے۔

اتنے میں ملازم نے ناشتہ کی شنید دی اور ارشاد حسن خاں صاحب نے ناشتہ کی میز تک رہنمائی فرمائی۔ ناشتہ کمال کا تھا اور خوب تھا۔ میں کچھ کچھ کم خوراک ہوںمگر آلوقیمہ کا ذائقہ اچھے باورچی کا پتہ دے رہا تھا اور گفتگو جاری تھی۔ میں نے جسٹس رستم کیانی مرحوم کا ذکر کیا اور جو کہ ان کی کتاب میں بھی اختصارکے ساتھ موجودہے۔ جسٹس کارنیلس کا ذکر خیر ہوا۔ جسٹس منیر کے بارے میں بات ٹال دی گئی۔ جسٹس افتخار کا ذکر آئندہ کسی وقت پر چھوڑ دیا گیا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا ذکر بھی ہوا۔ مجھے اور ارشاد حسن خان کو ان کا مستقبل کچھ کچھ عجیب سا لگ رہا ہے۔ ہم سب نے بڑی شاندار گفتگو کی اور ارشاد حسن خان صاحب کی یاد داشت کمال کی ہے اور ان کا نقطہ نظر اب بھی منفرد سا ہے۔ یہ نشست کبھی بھی مستقل نہیں ہوتی اور میں بھی تشنہ لب ہی رہا اور میرا خیال ہے سابق چیف جسٹس کو اب ایک اور کتاب کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

تازہ ترین