• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپوزیشن کی 9پارلیمانی پارٹیوں کے مشترکہ اجلاس میں پیر کو پانامہ لیکس کے حوالے سے بعض نکات پر اتفاق رائے اور بعض پر اختلافات کا منظرنامہ سامنے آیا ہے۔ جن چار نکات پر تمام پارٹیاں متفق ہیں وہ یہ ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور اس کا آغاز شریف خاندان سے کیا جائے، تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، حکومت نے جن ٹرمز آف ریفرنس کا اعلان کیا ہے وہ اپوزیشن کو منظور نہیں،کمیشن کے لئے قانون سازی اپوزیشن کی مشاورت سے کی جائے۔ ٹرمز آف ریفرنس یا شرائط کارکے حوالے سے خود اپوزیشن پارٹیوں میں بھی اختلافات ہیں جو پہلے اجلاس میں دور نہیں ہوسکے۔ اب چار رکنی کمیٹی شرائط کار طے کرے گی جن پر منگل کے اجلاس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پیر کے اجلاس کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ وزیراعظم کے استعفے کے بارے میں تھا۔ عوامی جلسوں اور میڈیا بیانات میں تو سب پارٹیاں استعفے کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں لیکن مشترکہ اجلاس میں اس معاملے پر اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ چھوٹی پارٹیوں کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خاندان پر ابھی صرف الزامات لگائے گئے ہیں انہیں ثابت کرنا باقی ہے۔ محض الزامات لگا کر وزرائے اعظم سے استعفے لینے کی روایت انصاف اور جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق نہیں، بڑی پارٹیاں استعفے کے مطالبے پر تو متفق تھیں لیکن اندر ہی اندر یہ خوف بھی ان کے آڑے آرہا تھا کہ وزیراعظم کے استعفے کا فائدہ کوئی دوسرا نہ اٹھالے ۔ اسلئے یہ معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں چارمتفقہ نکات کے علاوہ یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ صدر مملکت 14روز میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں وزیراعظم اپنے خاندان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا خود جواب دیں۔ تجزیہ نگاروں کی رائے میں اپوزیشن کا اجلاس کئی وجوہات کی بنا پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکا۔ ان میں سے ایک، دوسری جماعتوں کا یہ اندیشہ ہے کہ ان کی جدوجہد کا سیاسی فائدہ عمران خان نہ اٹھا لیں۔ دوسرا، خود پیپلز پارٹی کی حکومت پر سندھ میں کرپشن اور بیڈگورننس کے الزامات ہیں جس سے اس کی پوزیشن کافی کمزور ہوچکی ہے۔ پی ٹی آئی کی پوزیشن دوسری جماعتوں سے اگرچہ بہتر ہے مگر اب اس کی وہ مقبولیت برقرار نہیں جو اسے اسلام آباد دھرنے کے وقت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر حکومت کی مخالفت میں یک جا ہونے کے باوجوداپوزیشن پارٹیوں کو باہمی اختلافات کی خلیج پاٹنے میں مزید وقت درکار اور مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کی اس سیاسی مشق کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کوئٹہ میں ہیلتھ کارڈز کے اجرا کی تقریب میں یاد دلایا ہے کہ ان پر آج تک ایک روپے کی کرپشن کا الزام بھی ثابت نہیں ہوا اسلئے مخالفین کو 2018کے انتخابات تک بلکہ اس کے بعد بھی صبر کرنا ہوگا۔ اسی تقریب میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنااللہ زہری نے اپنی تندوتیز تقریر میں مخالفین کو للکارا کہ اگر ن لیگ کو حکومت نہ کرنے دی گئی تو ہم کسی بھی حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن میں محاذآرائی کی یہ کیفیت عوام میں اضطراب پیدا کررہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید کرنا اور اس کی کمزوریاں سامنے لا کر اس کا محاسبہ کرنا ہے لیکن اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا نہ کرے جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔ حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں کو مضبوط اور ایک دوسرے کا مددگار ہونا چاہئے۔ ملک کا نظام اسی صورت میں درست سمت میں چل سکتا ہے۔ پانامہ لیکس نے ملکی سیاست کو ایک نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں بڑے فیصلے سڑکوں اور گلیوں میں نہیں، پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں یا مذاکرات کی میز پر۔ یہ ذمہ داری حکومت کی بھی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کی بھی۔ وزیراعظم نے پہل کرتے ہوئے اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ ساری جمہوری پارٹیاں بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام مسائل پر مثبت سوچ اختیار کریں اوران کا مل بیٹھ کر حل تلاش کریں۔
تازہ ترین