صوبائی حکومت نے تاریخ کی بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے سرکاری ملازمین اور محنت کشوں کے ایک سال سے زائد عرصے سے جاری احتجاج کے بعد بالاآکر حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر سرکاری ملازمین کے لئے تنخواہوں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کے آجرت میں صوبائی بجٹ سے قبل ہی اضافے کا اعلان کرکے انہیں مطمعین کرنے کی کوشش کی مگر دوسرے طرف صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کے کابینہ اراکین کی تعداد کو غیر آئینی قراردے اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ممبران نے انوکھا احتجاج کرکے حکومت کو مشکلات سے دوچار کیا۔
صوبے کے سرکاری ملازمین اور محنت کش گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے ملک میں کمرتوڑ مہنگائی کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور مہنگائی کے تناسب سے اپنی تنخواہوں اور اجرت میں اضافے کا مطالبہ کرتے آرہے تھے جس کا بالاآخر وزیراعلیٰ نے نوٹس لتے ہوئے گزشتہ ایک اخباری کانفرنس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے جبکہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کشوں کی کی کم سے کم ماہانہ اُجرت17 ہزار روپے سے بڑھا کر 21 ہزار روپے کرنے کی نوید سنائی ،جس پر سرکاری ملازمین نے تو کسی حد تک اطمینان کا اظہار کیا ہے مگر یومیہ اجرت پر کام کرنے والےمحنت کش بدستور مایوسی کا شکارہ ہیں۔
ان کہنا ہے کہ جب ان کی کم سے کم ماہانہ اجرت 17ہزار روپے تھی ا س پر کس نے عمل کیا جوکہ اب ان کے لئے ماہانہ 21ہزار اجرت کے اعلان پر عمل درآمد ہوگا ،یہاں تک صوبائی حکومت اور تحریک انصاف میں شامل کارخانہ داروں نے بھی محنت کشوں کو حکومت کی جانب سے مقررکردہ اجرت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا ،یہی وجہ ہے محنت کش کہنا ہے کہ اس اصل بات فیصلے پر عمل درآمد کرانا ہے اگر فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو تو اس قسم کے اعلانات محض سیاسی ڈھکوسلہ ہی ہوسکتا ہے۔
صوبائی اسمبلی اپوزیشن نے صوبائی کابینہ کے اراکین کی تعداد کے حوالے سے آئینی نکتہ اٹھاکر حکومت کو مشکل میں ڈال دیا،صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن رکن احمد کریم کنڈی نے صوبائی اسمبلی کے جلاس میں آئینی نکتہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ صوبائی کابینہ غیر آئینی ہے اس کی تصیح کی جائے، اپوزیشن رکن کا کہنا تھا کہ آئین کےتحت وزیراعلی سمیت کابینہ کےوزراء کی تعداد 15 یا مجموعی تعداد کے 11 فی صد ہوگی، کابینہ میں اس وقت وزیراعلی سمیت وزراء کی تعداد 17 ہیں، کابینہ کی تعداد غیر قانونی ہے، تعداد کم کی جائے،17ممبران کی کابینہ غیرقانونی اورغیرائینی ہے۔ وزیر قانون فضل شکور نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس وقت کابینہ کے 15وزراء کومحکمے دئیے گئے ہیں، ایک کو نہیں، ایک وزیر کو محکمہ نہ دینے کے باعث کابینہ قانونی ہے۔
ایک درجن سے زائد وزرا کے علاوہ مشیروں اور معاونین کی فوج رکھی گئی ہےجوکہ اس غریب صوبے کے خزانے کو گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں،صرف یہی نہیں بلکہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے صوبے میں ضم ہونےوالے سابق قبائلی اضلاع کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی جس پر ان پسماندہ علاقوں کے جہاں عوام سراپا احتجاج ہیں وہاں ان علاقوں سے صوبائی اسمبلی کے لئے پہلی بار منتخب عوامی نمائندے بھی اجتجاج پر مجبور ہوچکے ہیں اور ہفتہ رفتہ میں پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی نے اسمبلی کے جاری اجلاس میں احتجاج کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے ان اضلاع سے اپوزیشن اراکین نے ایک ساتھ اجلاس کے آغاز سے لیکر آخر تک پورا دن اسپیکر کے سامنے زمین پر بیٹھ کر قبائلی علاقوں کی تعمیر وترقی اور بحالی کیلئے اعلان کردہ فنڈز کی فراہمی میں تاخیر پر احتجاج کیا۔
تاہم حکومتی پارٹی میں شامل قبائلی اضلاع کے ارکان اسمبلی اس احتجاج سے دور رہے۔ اسپیکر سمیت صوبائی وزراء کی جانب سے منت سماجت بھی ان ارکان اسمبلی کو احتجاج ختم کرنے پر راضی نہ کرسکے احتجاج کرنے والوں میں جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی شامل تھے۔ انکا کہنا تھا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے تحت قبائلی علاقوں کو انکا حق دیا جائے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 25ویں آئینی ترمیم کی رُو سے ْقبائلی اضلاع کیلئے مختص فنڈز میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان نے پہلے ہی اپنا حصہ ڈالنے سے انکار کیا ہےجبکہ یہی وہ قبائلی عوام تھے جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے دہشت گردی کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے طرح کھڑے رہے اوربے پناہ قربانیاں دیکر ملک کو بچاتے رہے لیکن وہی لوگ پہلے کی طرح آج بھی نہ صرف پسماندہ ہیں بلکہ آج بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں۔
ان کوشیشوں کے دوران قبائلی علاقوں کے انفراسٹرکچر کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا ان قبائلی عوام کو”بلا معاوضہ سرحدوں کے محافظ اور نڈر بہادر اور دلیر پختونوں“ کے کھوکھلے نعروں سے ٹرخایا جارہا ہے یہ القابات برطانوی عاصبوں کے دور سے چلے آرہے ہیں لیکن اس دوران ان لوگوں کو تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔