• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ، افغانستان میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد بے چین ہے کہ وہ جلد سے جلد افغانستان سے نکل جائے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی بچھائی بارودی سرنگیں نفرتوں اور خون سے بھرے ندی نالوں کی صفائی کا کام پڑوسی ممالک کریں۔ البتہ وہ افغانستان آرمی کی استعدادی صلاحیت کو فروغ ضرور دے رہا ہے ،اسی لئے اس نے افغانستان کی سیکورٹی افغان پولیس و فوج کے حوالے کردی ہے۔ وہ یہ بھی چاہے گا کہ اُس کے نو اڈوں میں سے کم از کم ایک اڈہ اس کے پاس رہے جس میں دس ہزار فوجی قیام کرسکیں۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ طالبان کے پاس گرفتار شدہ اُن کا ایک فوجی بوبرگیدل اُن کے حوالے کردیا جائے، اُس کی خواہش ہے کہ طالبان القاعدہ سے کوئی تعلق نہ رکھیں۔ انڈین حلقے یہ کہتے ہیں کہ امریکی طالبان سے دوستی کی پینگیں بڑھا کر روسی ریاستوں خصوصاً تاجکستان اور کرغیزستان میں مداخلت کرانے کی کوشش کریں گے۔ ان خواہشات اور امیدوں کے ساتھ امریکہ طالبان سے مذاکرات کے لئے راضی ہوا اور اس روس کو جس نے شام میں اُس کے قدم روکے سزا دینا چاہتا ہے، چین کو بھی اس کی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے دوحا قطر جو اس وقت امریکہ کے قبضے میں ہے وہاں اس نے طالبان سے مذاکرات کے لئے دفتر کھول دیا ہے۔ اگرچہ اس Defacto سفارت خانہ پر طالبان کا جھنڈا جو موجودہ افغانستان کا جھنڈا بھی ہے، لہرانے پر اعتراض حامد کرزئی کی طرف سے ہوا جس کی حمایت روس نے بھی کی اور اُس کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر 25 جون 2013ء کو افغان صدارتی محل پر حملہ کردیا اگرچہ یہ حملہ ناکام رہا اور افغانی حکام کے مطابق سارے حملہ آور مارے گئے۔
تاہم اس لئے طالبان نے حامد کرزئی صاحب کو ان کی حیثیت یاد دلائی ہے کہ وہ ایک ایسی طاقت ہیں جن کا ستارہ گردش میں ہے تاہم یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ یہ مذاکرات ہوں گے اور ان مذاکرات کی ابتدائی شرائط جو پاکستان نے لگائیں یا طالبان کی طرف سے آئیں وہ قبول کر لی گئی ہیں۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات شروع کرنے کی یہ شرط لگائی گئی کہ اُن کے پانچ کمانڈروں کو رہا کردیا جائے جو اس وقت گوانتاناموبے میں قید ہیں۔ اُن میں طالبان دور کے وزیرداخلہ کریم اللہ خیرخواہ، طالبان دور کے ڈپٹی انٹیلی جنس چیف عبدالحق واثق، تین کمانڈر ملّا نوراللہ نوری، ملّا خیراللہ اور ملّا فضل اخوند شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے ان طالبان کمانڈروں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اگرچہ امریکہ کا قانون ایسے کمانڈروں کو یا اشخاص کو جو امریکی دستور کے مطابق اور جن کو امریکی حکومت نے دہشت گرد قرار دیا ہو، وہ رہا نہیں کئے جا سکتے مگر گوانتاناموبے امریکی حدود میں شامل نہیں ہے۔ اس لئے امریکہ کو اُن کی رہائی میں کوئی قانونی دشواری درپیش نہیں آئے گی اور وہ جلد رہا کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے اس لئے اس کے لئے وہ انڈیا کی مداخلت رکوانے پر اصرار کر رہا ہے تاکہ زیارت میں قائداعظم کی آخری آرام گاہ جیسی تباہی اور دیامیر جیسے سیاحتی مقامات پر دہشت گردی نہ ہو وہ امریکہ سے تعاون پر صرف اس لئے راضی ہوا کہ ڈیونڈرلائن کو بین الاقوامی سرحد قبول کر لیا جائے گی اور اس کو استحکام ملے گا وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ افغانستان میں انڈیا کا اثرورسوخ نہ رہے اور کابل میں پاکستان دوست حکومت قائم ہو۔ جس کو امریکہ نے مان لیا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ جان کیری انڈیا کے دورے کے بعد اس میں کیا تبدیلی لانا چاہیں گے اور سوال یہ بھی ہوگا کہ کیا وہ تبدیلی پاکستان کے لئے قابل قبول بھی ہوگی ؟ تاہم امریکہ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پاکستان کے بغیر نہ طالبان سے مذاکرات ممکن ہیں اور نہ ہی اُن کی محفوظ پسپائی۔ اس لئے اس نے انڈیا کو افغانستان کے جمہوری نظام کو مضبوط کرنے اور اپریل 2014ء میں افغانستان میں صاف و شفاف الیکشن کرانے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ انڈیا کو چین کی پیشرفت روکنے کیلئے تیار کر رہا ہے، اس کو راضی کیا جارہا ہے کہ وہ اس کے ایشیاء، بحر ا لکاہل منصوبہ کا حصہ بن جائے، اس کو جدید ترین اسلحہ کی پیشکش کی گئی ہے، اس سے کہا جارہا ہے کہ وہ عالمی ماحولیاتی سرگرمیاں بڑھائے ، پاکستان کیلئے مشکلات نہ کھڑی کرے کیونکہ وہ پھر بلاواسطہ امریکہ کی مشکلات بن جائیں گی۔
پاکستان بمشکل تمام امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کرانے پر راضی ہوا اور اس کے لئے طویل بحث و مباحثہ، سفارت کاری جاری رہی، خدشات دور کئے گئے، امریکی وزیرخارجہ جان کیری اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی دو ملاقاتیں ایک اردن کے دارالحکومت میں 7اپریل2013ء اور دوسری بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں 24 اپریل 2013ء کو ہوئی اس ملاقات میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شریک تھے۔ اس ملاقات کی تیاری کے لئے ایک امریکی اعلیٰ سطحی وفد جس میں امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاع پیٹرلیوائے، جنرل ڈیگلوس لوٹے اور ڈیوڈپیریس جنرل کیانی سے ملنے 21 اپریل 2013ء کو آئے تھے، نواز شریف کی الیکشن میں کامیابی کے بعد امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمس ڈوبن 30 مئی2013ء کو آئے اور انہوں نے میاں نوازشریف کے علاوہ جنرل کیانی سے بھی ملاقات کی اور طالبان سے مذاکرات کا راستہ ہموار کیا۔ پاکستان نے ملّا عمر کے ڈپٹی عبدالغنی برادران کے ذریعے طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کیا اور اب یہ مذاکرات دوحا میں شروع تو ہو گئے ہیں مگر چند رکاوٹیں عالمی اور افغان حکومت کی طرف سے کھڑی ہوگئی ہیں جن کو دور کرنا امریکہ کا کام ہے اور اگر وہ خوش اسلوبی کے ساتھ افغانستان سے فوجی انخلا چاہتا ہے تو یہ مقصد پاکستان اور طالبان کی مدد کے بغیر حاصل نہیں ہوسکے گا۔
تازہ ترین