• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کیا عمل میں آئی ان کو عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کی افواہ گردش کرنے لگی‘ جب پیپلز پارٹی نے بھی شہباز شریف کو عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بنانے کی حمایت کر دی تو اس افواہ کو مزید تقویت ملی ۔ شہباز شریف کی رہائی کے پیچھے کوئی پلان ہے جس کی وہ تو رازداری کر ہی رہے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے کھلم کھلا عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم کے طور ان کا نام لینا شروع کر دیا۔ اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے نکل جانے کے بعد حکومت کے خلاف یہ تحریک دم توڑ گئی بلکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں باہم دست و گریبان ہو گئیں ۔پاکستان ڈیمو کریٹک کا سربرہی اجلاس اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت منعقد ہوا تو آئندہ تین ماہ میں 3جلسے منعقد کرنے کے سوا کوئی بڑا اعلان نہ کر سکا۔ جب سے پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شو کاز نوٹس جاری کئے ہیں دونوں جماعتوں نے پی ڈی ایم کی قیادت سے قطع تعلق کر رکھا ہے لیکن پارلیمنٹ میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف کے دستر خوان کی خوشہ چین بن گئی ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو ببانگ دہل کہہ دیا ہے کہ پیپلز پارٹی شہباز شریف کے موقف کو ہی مسلم لیگ (ن) کا ’’بیانیہ‘‘ سمجھتی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) نواز شریف اور مریم نواز کے سامنے جواب دہ نہیں بلکہ اپنے کارکنوں کے سامنے جواب دہ ہے کل تک تو ان کے درمیان گاڑھی چھن رہی تھی اب نام سننے کو بھی تیار نظر نہیں آتے ۔ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیر حسین بخاری نے عبوری مدت کے لئے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ پر ایک پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے شرکت کی‘ یہ اپنی نوعیت کا منفرد عشائیہ تھا جس میں ایک طرف بلاول بھٹو زرداری نے شرکت نہیں کی تو دوسری طرف مریم نواز بھی نہ آئیں اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن بھی اس عشائیہ میں اس لئے رونق افروز نہ ہوئے کہ یہ عشائیہ پارلیمانی لیڈروں کے اعزاز میں دیا جا رہا تھا۔ جب مریم نواز سے اس عشائیہ میں عدم شرکت کے بارے استفسار کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ انہوں نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے اعزاز میں دئیے جانے والے عشائیہ کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔ اپوزیشن کے دو پلیٹ فارموں میں دو عملی نظر آرہی ہے۔ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو گلے لگا لیا ہے جب کہ نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے لئے پی ڈی ایم کے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ مریم نواز تو پیپلز پارٹی کا نام سننے کے لئے تیار نہیں‘ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد جب مریم نواز سے پیپلز پارٹی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے حوالے سے پی ڈی ایم کے اجلاس میں کوئی غور و خوص ہوا ہے اور نہ ہی یہ کوئی اہم مسئلہ ہے کہ اتنے اہم اجلاس میں اس موضوع کو بار بار زیر بحث لایا جائے‘‘ دوسری طرف پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سیکریٹری جنرل شاہد خاقان عباسی نے پیپلز پارٹی کی غیر مشروط واپسی پر اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پارٹی کے قائد نواز شریف نے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم سے باہر رکھنے کے لئے جو پوزیشن اختیار کر رکھی ہے اسے پارٹی کے ’’ہارڈ لائنر‘‘ کی بھرپور تائید حاصل ہے جب کہ شہباز شریف کے لئے عبوری مدت کے لئے وزارت عظمیٰ کا منصب پیپلز پارٹی کی امداد کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں ۔ سیاسی محافل میں یہ بات برملا کہی جارہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کے عبوری مدت کے لئے وزیر اعظم بننے کی راہ میں حائل نہیں وہ عبوری مدت کے لئے قومی حکومت کے قیام کی تجویز کی منظوری حاصل کرنے کے لئے لندن جانا چاہتے ہیں حکومت نے ان کی لندن روانگی میں رکاوٹ ڈال کر ان کے منصوبہ کو فی الحال کھٹائی میں ڈال دیا ہے، ای سی ایل میں ان کا نام ڈال کر عدالتوں کے چکر لگانے پر مجبور کر دیا ہے ۔ فی الحال اسٹیبلشمنٹ کے عزائم کا بھی پتہ نہیں لیکن ملک میں ’’چوہے بلی ‘‘ کا کھیل جاری ہے ۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اب عمران خان شکستہ حال پی ڈی ایم سے خوفزدہ نہیں بلکہ شہباز شریف کی ’’پھرتیوں‘‘ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے مسلم لیگ (ن) سے قابل قبول شخصیت شہباز شریف ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی طاقت ور عناصر جو خود وزارت عظمی کے منصب پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں شہباز شریف کی راہ میں کانٹے بچھا رہے ہیں انہیں ڈر ہے کہ اگر شہباز شریف ایک بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو گئے اور قومی حکومت کے اس منصوبے کا چوہدری نثار علی خان بھی حصہ بن گئے تو پھر ان کو ہٹانا ممکن نہیں ہو گا اس لئے مسلم لیگ (ن) کے ’’ہارڈ لائنرز‘‘ میں شہباز شریف کی’’ سرگرمیوں ‘‘ کو ’’پسندیدگی‘‘ کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا ۔ شہباز شریف کے عبوری مدت کے لئے جہاں پیپلز پارٹی ڈنکے کی چوٹ پرحمایت کر رہی ہے وہاں مسلم لیگ (ن) کے اندر دبی دبی زبان میں شہباز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کی مخالفت کی جا رہی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے اندر طاقت ور عناصر شہباز شریف کو بآسانی وزارت عظمیٰ تک نہیں پہنچنے دیں گے جب تک لندن مقیم نواز شریف کی ’’شہباز شریف پلان ‘‘ پر مہر تصدیق ثبت نہیں ہوتی‘ شہباز شریف کے لئے منزل مقصود کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔ نواز شریف جو ماضی قریب میں اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ سیاستدان نہیں رہے‘ وہ شہباز شریف کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے راہ رسم بڑھانے سے روکتے رہے ہیں بار بار چرکے لگنے کے بعد ان کو کسی پر اعتبار نہیں جب کہ شہباز شریف جو کہ مفاہمت کی سیاست کے علمبردار ہیں وزارت عظمی کے حصول کے لئے پیپلز پارٹی جس کے بارے میں وہ ماضی میں سخت رویہ رکھتے تھے کو سینے سے لگانے کے لئے تیار ہیں پیپلز پارٹی بھی ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم لیگ (ن) کو منقسم کرنے کا کھیل کھیل رہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار کے سب سے بڑے منصب کے حصول میں کون کامیاب ہوتا ہے شہباز شریف یا مسلم لیگ (ن) کے اندر وزارت عظمیٰ کے دیگر تین چار امیدوار جن کے نام مصلحتاً نہیں لکھ رہا یا پھر کپتان آئندہ دو سال اپنے پیچھے دوڑائے رکھتے ہیں اس سوال کا جواب آئندہ چند دنوں میں مل جائے گا۔

تازہ ترین