• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں تو ہم بے شمار مغالطوں کا شکار ایک کنفیوزڈ قوم ہیں مگر کچھ مغالطے ایسے ہیں جو براہ راست ہماری تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔آج ایسے پانچ مغالطوں کا انتخاب پیش ہے:
1۔یہ جنگ ہماری نہیں :جب سے 9/11کا واقعہ ہوا ہے ہم یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں ،یہ امریکہ کی جنگ ہے لہٰذا ہمیں اس جنگ سے نکل جانا چاہئے اور آرام سے گھر بیٹھ کر پاپ کارن کھانے چاہئیں ،امریکہ جانے اور اس کا کام ،سانوں کی لگے!یہ ہے مغالطہ نمبر ایک۔ایک سپر پاور پر حملہ ہوتا ہے، حملہ کرنے والا جس ملک میں بیٹھا تھا وہ ہمارا ہمسایہ تھا، ہمسایہ بھی وہ جس کے ساتھ بارڈر نام کی کوئی چیزنہیں اورجہاں ہم نے دنیا جہان سے جنگجو اکٹھے کر کے بھیجے ، سپر پاور ہمارے ہمسائے پر حملہ آور ہوتی ہے اوراس کی اینٹ سے اینٹ بجادیتی ہے ،حملہ کرنے والا بھاگ کر ہمار ے ملک میں آ جاتا ہے ،آرام سے ایک قلعے نما مکان میں UPSلگا کر اپنی بیویوں اور آدھ درجن بچوں کے ساتھ chillکرتا ہے ،سپر پاور با لآخر اسے جا لیتی ہے سمندر برد کر دیتی ہے ۔اس سارے قضیئے میں اگر کوئی یہ کہے کہ ہم لا تعلق ہو کر بیٹھے رہتے تو اس سے بڑا لطیفہ شائد ممکن نہیں ۔چلیں مان لیا یہ جنگ امریکہ ہی کی تھی ہماری نہیں ،پر اب کیا کریں؟جو لوگ ہماری افواج ،پولیس اور سیکورٹی اداروں سے جنگ کر رہے ہیں ،انہیں کافر قرار دے کر ان کے خلاف ”جہاد“ کر رہے ہیں ،نہتے لوگوں کو بھی ساتھ میں بے دریغ مار ما ر کر لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں ،کیا ان کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں ؟یہ جنگ کبھی امریکہ کی ہوگی ،اب یہ ہماری ہی جنگ ہے مگر یہ ماننے کو تیار نہیں ،اور یہی سب سے بڑا مغالطہ ہے ۔اور اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ ”ہمیں امریکہ کی جنگ سے نکل جانا چاہئے ؟“ ہماری افواج کس محاظ پر امریکی فوجوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں ؟ افغانستان میں تو نیٹو افواج اور امریکی مل کر لڑ رہے ہیں جن میں اسلامی ممالک ترکی،بحرین، ملائشیااورمتحدہ عرب امارات شامل ہیں پاکستان نہیں۔ ان اسلامی ملکوں میں نہ تو دہشت گردی ہو رہی ہے اور نہ راگ الاپا جا رہا ہے کہ یہ جنگ ہماری نہیں ،اور ہم جو اپنے بقا کی جنگ لڑر ہے ہیں، آئے دن یہ بے معنی بیان سنتے ہیں کہ ہمیں اس جنگ سے نکل جانا چاہئے ،کہاں سے اور کیسے نکلنا چاہئے ،یہ کسی کو نہیں پتہ۔ اور اس بات کا کیا کریں کہ ہمارے مہربان دہشت گردوں نے ببانگ دہل یہ اعلان کر رکھا ہے کہ کل کو امریکہ افغانستان سے نکل بھی گیا تو وہ من مانی ”شریعت کے نفاذ کیلئے پاکستان میں جہاد جاری رکھیں گے ۔“ تو اب فرمائیے کہ یہ کس کی جنگ ہے ؟
2۔خون ریزی اور دہشت گردی خدا کا عذاب ہے:جس شخص کے معصوم بچے کے چیتھڑے کوئی سفاک دہشت گرد خودکش حملے میں اڑا دے اور پھر اس بد نصیب کویہ کہا جائے کہ یہ خدا کا عذاب ہے تو خدا جانے اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی ۔دہشت گردی کی عفریت کو خدا کا عذاب کہنے والے وہ لوگ ہیں جو قران میں اللہ کے صاف کہے ہوئے کو بھی نہیں مانتے ، ان لوگوں کو دہشت گردوں کے خلاف بولنے کی توفیق تو ہوتی نہیں ،الٹا معصوم لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر نہ جانے کس بے رحم جذبے کی تسکین کرتے ہیں ۔خدا نے سورة ہود میں نوح، عاد ،ہود، صالح ،لوط  اور شعیب کی اقوام پر عذاب کا حال بیان فرمایا ہے، ملاحظہ ہوں آیت نمبر 40اور41، 58،66 اور67۔ آیت نمبر 94میں حضرت شعیب کی قوم کے بارے میں اللہ فرماتا ہے ”اور جب ہمارا حکم آپہنچا ،ہم نے شعیب کو اور اس کے ساتھیوں کو جو اہل ایمان تھے اپنی مہربانی سے بچا لیا،اور ان ظالموں کو ایک سخت آواز نے آپکڑا، سو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔“ اسی سورة کی آیت نمبر 116میں خدایہ بھی فرماتا ہے ’تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دے حالانکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں ۔“اب بھی اگر کوئی یہ کہے کہ ملک میں جاری خوں ریزی اور دہشت گردی خدا کا عذاب ہے تو اس سے پوچھنا چاہئے کہ یہ کیسا عذاب ہوا جس میں بے گناہ بچے ،عورتیں ،بوڑھے اور جوان بلاتفریق مارے جا رہے ہیں ،خدا نے تو ایسا نہیں کہا ،پھر کیوں یہ ہمیں اس مغالطے میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں!
3۔دہشت گردی کا حل مذاکرات ہیں :یہ سب سے خوبصورت اور آج کل کا مقبول مغالطہ ہے ۔اس مغالطے کے حق میں یہ دلائل بہت زور شور سے دئیے جا رہے ہیں کہ اگر امریکہ مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں ،دنیا کی ہر جنگ بہرحال مذاکرات سے ہی ختم ہوتی ہے ،کیا ہو اگر ہمارے چالیس ہزار بے گناہ لوگ ان معصوم دہشت گردوں نے مار دئیے،دوسری جنگ عظیم میں تو کروڑوں لوگ مارے گئے تھے انہوں نے بھی توآپس میں مذاکرات ہی کئے تھے وغیرہ وغیرہ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکی فوج افغانستا ن پر قابض ہے جو وہاں سے نکلنے کے ایجنڈے پر مذاکرات کرنا چاہ رہی ہے ،ہم کس ایجنڈے پر مذاکرات کریں گے ؟کیا اس بات پر کہ بھائی جب آپ خود کش حملہ آور بھیجیں تو پہلے بتا دیا کریں تاکہ اپنے بچوں کی جگہ ہم آپ کی خدمت میں جان حاضر کر کے ثواب دارین کما سکیں!رہی بات دوسری جنگ عظیم کی تو اس قوم کے ”محسنوں“ کو شائد علم نہیں کہ اس جنگ میں جرمنی نے 7مئی اور جاپان نے 11اگست 1945کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال کر ہار مانی تھی ،جاپان کے جنرل ٹوجو کا بین الاقوامی فوجی ٹریبیونل میں مقدمہ چلایا گیا اسے 23دسمبر1948کو پھانسی دے دی گئی ۔جرمن لیڈر شپ کے خلاف مشہور زمانہ نیورمبرگ ٹرائل ہوئے جس کے نتیجے میں متعدد کو پھانسی اور طویل عمر کی قید کی سزا ہوئی۔جرمنی اور جاپان کو کئی دہائیو ں تک فوج رکھنے کی اجازت نہیں ملی اور جاپان پر تو امریکیوں نے 1951تک باقاعدہ حکومت کی ۔سو تاریخ تو ہمیں یہ بتاتی ہے مگر ہم مغالطے میں ہی خوش رہنا چاہتے ہیں ۔لگے رہو منا بھائی!
4۔سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے:جس ملک میں موبائل فون کا سستا ترین پیکج لینا سب سے بڑا مسئلہ ہو،جہاں جمعے کی چھٹی بحال کرنے کے لئے نو منتخب وزیر اعظم کی خدمت میں آدھے صفحے کا اشتہار شائع کروایا جائے ،جہاں سود کے خلاف تو جہاد پر اکسایا جائے مگر دہشت گردوں کو پیار سے سمجھانے کی بات کی جائے ،جہاں ڈینگی کے خلاف تشہیری مہم تو چلائی جائے مگر خود کش حملوں پر کان لپیٹ لئے جائیں ،وہاں لوگوں کا اس مغالطے میں رہنا سمجھ میں آتا ہے کہ اس ملک میں لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی سے بڑا مسئلہ ہے ۔بجلی خریدی بھی جا سکتی ہے ،ڈیم کے ذریعے بنائی بھی جا سکتی ہے ،مگر ایک معصوم شخص کے مردے میں روح نہیں پھونکی جا سکتی ۔
5۔ڈرون کا رد عمل :ملک میں جاری دہشت گردی کی وجہ ڈرون حملے ہیں ،جب امریکی ڈرون بے گناہ شہریوں کو مارتے ہیں تو ان کے رد عمل میں خود کش حملے ہوتے ہیں۔یہ سب سے گھسا پٹا مغالطہ ہے۔ ایک طرف تو ہم کہتے تھے کہ یہ ساری دہشت گردی سی آئی سے اور بلیک واٹر کے ایجنٹ کرواتے ہیں اور دوسری سانس میں کہتے ہیں کہ یہ ڈرون کا رد عمل ہے ۔اگر ڈرون کا رد عمل ہے تو وہ لوگ جو اس رد عمل کے نتیجے میں مرتے ہیں ان کے لواحقین اپنا رد عمل وانا میں جا کر کیوں نہیں دکھاتے ۔یہ کیسا رد عمل ہے جو داتا دربار ،عبد اللہ شاہ غازی کے مزار اور پشاور کے مینا بازار میں لوگوں کی جان لیتا ہے ۔
جس ملک میں ہٹلر کے چاہنے والے موجود ہوں وہاں ان مغالطوں کے سفاک پیروکاروں پر بھی حیرت نہیں ہونی چاہئے۔خدا نہ کرے ان کا کوئی پیارا کبھی کسی دہشت گردی میں مارا جائے ،کیونکہ اسی صورت میں انہیں پتہ چلے گا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں!
تازہ ترین