آغا سید حامد علی شاہ موسوی
ہر دور میں دشمنان دین کی یہ کوشش رہی ہے کہ اسلام کو جھوٹے دلائل اور الزامات سے جھٹلا کر پھیلنے سے روکا جائے، لیکن خلّاق عالم کے نظام میں ہر زمانے میں ایسے نمائندگان الٰہی موجود رہے، جنہوں نے اسلام پر ہونے والے حملوں کا مدلل جواب دیا اور دشمنان اسلام کی سازشوں کو ناکام بنا کر رکھ دیا۔ انہی مشاہیر اسلام میں ایک نمایاں ترین شخصیت خانوادۂ رسول ؐکی عظیم ہستی امام علی بن موسیٰ الرضاؒ ہیں جو امام ضامن کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
آپ نے اپنے دادا بزرگوار حضرت امام جعفر صادقؒ کی شہادت کے بعد 11 ذیقعد 148ھ کو صفحہ ارضی پر قدم رکھا اور دنیائے علم و عرفان‘عالم شرف و فضل وزہد و تقویٰ کو اپنے وجود مبارک سے افتخار بخشا۔ آپ کا اسم گرامی علی کنیت ابو الحسن القاب صابر‘ذکی‘ولی ‘رضی ہیں سب سے زیادہ مشہور لقب رضاہے۔ علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو ’رضا ‘ اس لئے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند عالم ،رسول اکرمﷺ ،ائمہ اور تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے ۔(اعلام الوریٰ) امام جعفر صادق ؒ نے شہادت سے قبل اپنے فرزند امام موسی کاظمؒ سے فرمایا تھا، عنقریب تمہارے یہاں ایک فرزند پیدا ہونے والا ہے جو عالم آل محمد ہوگا، کاش میں اس کے زمانے کو درک کرلیتا۔
جب مشہور عباسی خلیفہ مامون الرشید نے اپنی گرتی ہوئی شہرت کو سنبھالا دینے کے لیے امام علی ابن موسیٰ الرضاؒ کو اپنا ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان کیا تو ان کے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔ آپ کا شجرہ نسب چھ واسطوں سے خیر البشررسول خدا محمد مصطفیٰﷺ تک جا پہنچتا ہے ۔
آپ کی والدہ گرامی کا اسم گرامی نجمہ ،جب کہ بعض مقامات پر خیزان‘ثمانہ ‘طاہرہ اور بعض دوسرے نام بھی منقول ہیں ۔ یہ عظیم ترین خاتون اپنے زمانے میں انسانی کمالات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے ساتھ عزت و حرمت میں بے مثل تھیں۔ آپ کے والد گرامی امام موسیٰ بن جعفر الکاظم ؒ کو باب الحوائج کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام شافعیؒ کا مشہور قول ہے کہ حضرت امام موسی کاظم ؒ کا مزار قبولیت حاجات کا ذریعہ ہے ۔(تاریخ بغداد)
علامہ عبد الرحمن جامی تحریر فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر اپنے عہد میں کوئی امام علی بن موسیٰ الرضا ؒکی مثال و نظیر نہ تھا۔ آپ کی باتیں پُر ازحکمت ،عمل درست اور کردار محفوظ عن الخطاء تھا۔آپ علم و حکمت سے بھرپور تھے ۔(شواہد النبوۃ )علامہ عبید اللہ لکھتے ہیں کہ ابراہیم ابن عباس کا کہنا ہے میں نے علی بن موسی الرضاؒ سے بڑا عالم دیکھا ہی نہیں ۔(ارجح المطالب صفحہ 255) آپ ہر زبان میں اور ہر لغت میں فصیح و دانا ترین تھے جو شخص جس زبان میں بات کرتا،آپ اسے اسی زبان میں جواب دیتے۔ (روضۃ الاحباب)رجال کشی ،دمعۃ ساکبہ میں ہے کہ آپ اہل زمانہ میں اعلم ترین اور کثیر الصوم و عبادات تھے ۔
امام علی بن موسیٰ الرضا ؒ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد 35سال کی عمر میں فرائض امامت نبھانے لگے اور یہ سلسلہ 203 ہجری تک رہا۔ جب 23ذیقعد کو آپ نے جام شہادت نوش کیا ،اس وقت آپ کی عمر شریف 55سال تھی۔ آپ کا مدفن مشہد مقدس ایران میں ہے اور آپ کی قبر اطہر ہر دور میں مرجع خلائق رہی ہے۔
اقوال ِامام رضاؒ:
امام رضا ؒ کا ارشاد ہے کہ’’ کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو مکمل نہیں کرسکتا، جب تک اس میں تین صفتیں نہ پائی جاتی ہوں۔1۔دین کے بارے میں گہری واقفیت رکھتا ہو2۔معیشت کے امور میں حسن تدبیر سے کام لیتا ہو۔3۔ مشکلات و مصائب و آلام میں صبر و برداشت کرتا ہو۔
پھر فرمایا’’عبادت صرف روزوں اور نمازوں کی کثرت سے نہیں، بلکہ قابل قدر قیمت عبادت اللہ کے بارے میں زیادہ و گہرا تفکر‘تدبر اور معرفت خدا یعنی خدا کی پہچان رکھنا ہے۔
آپ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا، نفع میں رہے گا جو غفلت برتے گا، وہ گھاٹے میں رہے گا جو شخص اللہ سے ڈرے گا، وہ دوسروں سے بے خوف رہے گا جو شخص نصیحت حاصل کرے گا وہ بینا (بابصیرت ) ہوجائے گا جو شخص بینا ہوجائےگا، وہ سمجھ جائےگا اور جو شخص سمجھ جائے گا وہ صاحب علم و دانا ہوجائے گا۔