• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اسلامی تعلیمات و تصورات کے سلسلے میں اگر ہم اپنے طرزِفکروعمل کا ایمان و علم کی روشنی میں احتساب کریں تویہ حقیقت ہمارا منہ چڑاتی ہے کہ ہم نے زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات و تصورات کو نہ صرف بگاڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ اِن تعلیمات و تصورات کی روح کو بھی یکسر فراموش ونظر انداز کردیا ہے ایسی ہی ایک چیز’’صدقہ‘‘ بھی ہے کہ جس کے ادائیگی کے طریقے کو ہم نے توہّمات کا مجموعہ بنادیا ہے ’’صدقہ کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت ، اہمیت اور ترغیب آئی ہے ۔ اللہ نے رسول ﷺ کو حکم دیا کہ ’’(اے بنیﷺ) اِن کے مال و دولت میں سے صدقہ لے کر انہیں اِس سے ظاہر میں پاک اوراِن کے باطن کا تزکیہ کریں‘‘۔

لغت عرب کی روسے صدقہ کا لفظ ’’صدق‘‘ (ص -د-ق) سے ہے۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ دل کی گہرائی، اخلاص، پوری سچائی کے ساتھ بہ رضاو رغبت اپنے پسندیدہ اور پاکیزہ مال کی ملکیت سے اللہ کی رضا کے لئے اپنے بھائی کے حق میں دستبردار ہو جانا ۔صدقے کے اس حقیقی معنی سے اس غلط تصور کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ جو چیز ’’صدقہ‘‘ میں دی جارہی ہے وہ کوئی بہت ناپاک اور نجس چیز ہے یا اس کے اندر بلائیں لپٹ یا چمٹ گئی ہیں یا وہ بلاؤں سے بھری ہوتی ہے۔ یہ سارے تصورات فضول اور لغو ہیں۔ بلکہ صدقہ میں تو جو مال دیا جارہا ہے وہ گویا اللہ کو دیا جارہا ہے اور جو چیز اللہ کو دی جائے گی وہ کوئی گندی ، ناپاک یا بلاؤں کا مجموعہ نہیں ہوگی بلکہ پاکیزہ اور پسندیدہ مال ہوگا۔

رسول اللہ ﷺ کی بہت سی احادیث سے صدقات کی صورت میں زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ جِن کا مجموعی خلاصہ یہ ہے کہ :

’’اللہ نے(اہلِ ایمان) کے مال پر صدقہ فرض کیا ہے، جو اِن کے مالداروں سے لیا جائے گا اور اُن کے غرباء کو لوٹادیا جائے گا،جِس مال سے صدقہ نہ نکالا جائے تو وہ اس مال کو تباہ کرکے چھوڑے گا، صدقہ اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا اور بُری موت کو دفع کرتا ہے۔صدقہِ سے مال میں کمی نہیں آتی ، آگ سے بچو، چاہے آدھے چھوارےہی کے ذریعہ سے ، جس نے کسی مسلمان(ضرورت مند)کو کپڑا پہنایا، کھانا کھلایا اور پانی پلایا اللہ اس کو جنت کا سبز لباس، جنت کے پھل اور جنت کی سربمہر شراب سے سرفراز کرے گا، اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ آدمی کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہے، ہر نیکی صدقہ ہے ، برائی سے بچنا بھی صدقہ ہے ، تکلیف دہ چیز کا راستے سے ہٹادینابھی صدقہ ہے، بشّاش چہرے کے ساتھ اپنے بھائی سے ملاقات کرنا اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی بھر دینا بھی صدقہ ہے‘‘۔

اِن آیات و احایث کا خلاصہ پیش کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ صدقہ کتنی فضیلت و اہمیت کی حامل عبادت ہے مگر ہماری دین سے دوری، تعلیماتِ قرآن و حدیث سے لا علمی نے اِس عبادت کو کہ جو خالصِ اللہ کے لئے ہے شرک اور توہّم پرستی سے آلودہ کردیا ہے ہم میں سے اکثر لوگ اگر چہ وہ صاحبِ حیثیت نہ بھی ہوں صدقہ کرتے ضرور ہیں مگر اِس کے ادا کرنے میں غلط سوچ، جاہلانہ رسم و رواج اور مشرکانہ عقائد کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایک عبادت جو اخلاص اور للہیت سے تعبیر ہے، کو اپنی جہالت کے سبب ضائع کردیتے ہیں اور اس اجر و ثواب سے محروم رہتے ہیں جو اللہ نے اس کا مقرر کیا ہے ۔

صدقہ دیتے وقت ہم میں سے اکثر خصوصًا خواتین بڑی افراط و تفریط اور توہّم پرستی کا شکار ہو جاتی ہیں اور اِس قسم کی لا یعنی باتیں گھڑ لی جاتی ہیں کہ صدقہ ہفتہ یا منگل کے دن دیا جائے، دوپہر 12 بجے دیا جائے،لازمًا کالی مرغی یا کالا بکرا ہو اور اسے رات کو اس کے سرہانے باندھا جائے جس کا صدقہ دے رہے ہیں یا گوشت وغیرہ ہو تو اسے پہلے جس کا صدقہ دے رہے ہیں اس پرسے سات بار یا اکیس بار اتارا جائے۔ اجناس میں سے کوئی چیز صدقہ کی جارہی ہو تو رات کو مریض کے سر ہانے رکھا جائے پھر یہ کہ یہ صدقہ کس کو دیا جائے؟ تو ان توہم پرستوں کے پاس اس کا جواب اور مصرف یہ ہے کہ صدقہ کا گوشت دوپہر، 12بجے اتار کر چیل کوؤں کو کھلا دیا جائے، شام کو دونوں وقت ملتے مرغی کا انڈا اتار کر تین راستوں پر رکھ دیا جائے ، آٹے کی گولیاں بنا کر سمندر کی مچھلیوں کو کھلائی جائیں یہ اورایسی کتنی ہی جاہلانہ اور غیر شرعی باتیں صدقہ کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں رائج ہیں۔

یاد رکھیئے صدقہ دینے کے حوالے سے اللہ اور رسول ﷺ نے نہ کسی خاص چیز یاجنس و رنگ کا تعین فرمایا نہ کوئی مخصوص دن اور وقت مقرر کیا۔ اگر کوئی حکم دیا تو صرف اور صرف یہ کہ صدقہ میں آدمی پورے اخلاص اور دل کی سچائی کے ساتھ اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اس کے غصہ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے بہترین اور پسندیدہ مال سے اپنے ضرورت مند بھائی کی ضرورت پوری کردے۔ لہٰذا قرآن میں مصارف زکوٰۃ و صدقات کو سورۂ توبہ کی آیت نمبر 60 میں بڑی صراحت اور انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ارشاد ہوا :’’ یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے جو صدقات (زکوٰۃ) کی وصول کے کام پر مامور ہوں، اور اُن کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو اور غلاموں کی آزادی کے لئے اور قرضداروں کی مدد کرنے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے اور مسافروں کی مدد کرنے کے لئے ہیں‘‘۔

غور فرمایئے! قرآن نے جن آٹھ مصارف صدقات کو بیان کیا ہے، اِن مصارف میں کوئی جانور کتا ، بلی، چیل، کوّا، مچھلی اور چیونٹی نہیں ہے بلکہ یہ آٹھ کے آٹھ انسانوں کا ہی احاط کرتے ہیں قرآن مجید میں زکوٰۃ و صدقات کے یہی حق دار بیان کئے گئے ہیں ۔جن کی مختصر تفصیل یہ ہے۔

۱)فقیر:-فقیر سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ نہ کچھ مال تو ہو، مگر ان کی ضرورت کے لئے ناکافی ہو۔ وہ تنگ دستی میں گزربسر کرتے ہوں اور اپنی ’’سفید پوشی‘‘ کا بھرم رکھتے ہوئے کسی کے سامنے دستِ سوال درازنہ کرتے ہوں۔

۲)مساکین: - یہ بہت ہی تباہ حال لوگ ہوتے ہیں جِن کے پاس اپنے تن کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ ایسے لوگوں کو بھی مساکین میں شامل فرماتے تھے جو کمانے کی طاقت رکھتے ہوں مگر انہیں روزگار نہ ملتا ہو۔

۳)عاملین:-اِس سے مراد محکمۂ زکوٰۃ کے ملازمین ہیں جو زکوٰۃ و صدقات کی وصولی اور حساب و کتاب پہ متعین ہوں، اِن کی تنخواہیں زکوٰۃ و صدقات کی مد سے دی جائیں گی۔

۴)تالیفِ قلب:-وہ نو مسلم جو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اپنے خاندان قبیلہ سے الگ کردیا گیا ہو اور اس کا روزگار تباہ ہوگیا یا وہ لوگ جن کو اسلام کی حمایت یا اسلام کی مخالفت سے روکنے کے لئے روپیہ دینے کی ضرورت ہو۔

۵)غلام: -جو لوگ غلامی سے آزادی چاہتے ہوں، انہیں زکوٰۃ و صدقات کے مال سے آزاد کرایا جاسکتا ہے ۔

۶)قرض دار:-جو لوگ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوں اور ادائیگی قرض کی کوئی صورت نہ پاتے ہوں تو ا نہیں زکوٰۃ وصدقات کی مد سے قرض کی ادائیگی میں مدد دی جاسکتی ہے۔

۷)فی سبیل اللہ: -تمام نیک کاموں پر ، جہاد، دین کی تبلیغ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور اِن کاموں میں مصروف افراد کی نشوونما کے لئے۔

۸)مسافر: -مسافر کی بھی صدقہ اور زکوٰۃ سے مدد کی جاسکتی ہے ،چاہے اس کے پاس اپنے وطن میں کتنا ہی مال کیوں نہ ہو۔لیکن اگر حالتِ مسافرت میں وہ محتاج یا ضرورت مند ہو تو اُس کی مدد صدقہ و زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک چیل ،کوؤں ، مچھلیوں اور چیونٹیوں کے رزق کا تعلق ہے تو یاد رکھیئے کہ اولاً تو اللہ نے تمام جانوروں کے لئے زمین کے طول و عرض، سمندر کی گہرائیوں اور فضا کی بلندیوں میں بے انتہا رزق رکھا ہے اور اِن کے رزق کا ذمہ دار وہ خود ہی ہے کسی انسان کو اس کا ذمہ دار نہیں بنایا البتہ انسان کے رزق کی ذمہ داری رب العالمین نے انسان کے سپرد کی ہے اور ہر صاحبِ حیثیت کے مال میں دوسرے ضرورت مند بھائیوں کا حق رکھا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے :’’ تمہیں (اللہ کی طرف سے ) مدد اور رزق تمہارے کمزوروں اور فقیروں کی وجہ سے ملتا ہے‘‘۔

اللہ اور رسول ﷺ کا حکم کردہ اسلامی صدقہ وہی ہوگا جو انسان پر خرچ کیا جائے ، چیل ، کوؤں، مچھلیوں اور چیونٹیوں کو دیا جانے والا صدقہ ’’مشرکانہ اتارا‘‘ تو ہوسکتا ہے ،اسلامی صدقہ ہرگز نہیں۔

تازہ ترین