• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے شک یہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں ۔اس میں کوئی کہانی موجود نہیں ، کوئی قہقہہ درج نہیں ۔میں نے کوئی لطیفہ نہیں لکھا ۔ میں پنجاب حکومت کی بجٹ کارکردگی بیان کررہا ہوں ۔میں سمجھتا ہوں مضطرب عوام کوایسی ہی سچی خبروں سےشاد کیا جا سکتا ہے۔باقی مخالفین جو سمجھتے ہیں سمجھتے رہیں ۔

31دسمبر تک ہیلتھ کارڈ صوبہ پنجاب کے ہر گھر میں پہنچ جائے گا ۔پولیس میں تیرہ ہزار نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔صوبہ بھر میں ریسکیو ہیلی کیپ چلائی جائے گی ۔لاہور میں 86 ارب روپے کے عوامی منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ یہاں ریور راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ جیسے گیم چینجر منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ ایک ہزار بستروں پر مشتمل جنرل اسپتال، گنگارام میں مدر اینڈ چائلڈ اسپتال بنایا جارہاہے۔ سرفیس واٹر ٹریٹمنٹ اور رین واٹر ہارویسٹنگ کے منصوبے لگائے جارہے ہیں۔ لاہور میں 25 ہزار فلیٹس کے منصوبے کا آغاز جس کے پہلے مرحلے میں 4 ہزار فلیٹس بنائے جارہے ہیں،یہ اعلانات بڑے اہم ہیں ۔بے شک یہ پنجاب کاایک تاریخی بجٹ تھا ۔عثمان بزدار کی بجٹ تقریرنے ان روایات کے فروغ میںاہم کردار ادا کیا۔ جہاں اسمبلیوں میں بد تمیزی، بد زبانی، گالم گلوچ اور نفرتوں کا برملا اظہار جمہوریت کا حسن سمجھا جارہا تھا، جہاں ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنا سیاست قرار دیا جارہا تھا۔وہاں عثمان بزدار کا بجٹ تقریر میں نئی اور مہذب روایات کا آغاز کرنا خوش آئند ہے۔

بزدار صاحب نے آغاز ِ تقریر میں کورونا کی روک تھام میں شامل تمام اداروں اور افراد کا شکریہ ادا کیا۔شہید ہونے والے ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کو خراج تحسین پیش کیا۔ مجھے انکی تقریرمیں عوامی مراعات کے علاوہ اہم ترین چیز یہی ملی کہ کامیابیوں میں قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جاتا۔صحت اور معاش کے میدان میں کورونا کے باعث ڈیڑھ سال جس مشکل سے گزرا ہے وہ حکومت کیلئے ایک بڑاچیلنج تھا ۔پہلے حکومت ملتے ہی خسارہ ہی خسارہ ورثے میں ملا۔ اوپر سےکورونا کی تباہ کاریاں۔

عثمان بزدارنے چیلنجز کو دہراتے ہوئے بتایاکہ ان کی حکمت عملی کیا رہی، کیسے تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوا، کیسے ہوا کا رخ بدلا ۔سابقہ ادوار میں ترقی کی نہریں بہنے کی کہانی کی حقیقت کیسے سامنے آئی ۔کیسے حقیقی ترقی کا دھارا جنوبی پنجاب سمیت پورے پنجاب میں مساوی ترقی کے اصول پر پھیلااور بتایاکہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں 66 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ اورنج لائن کی پچھلے برس کی گئی ایلوکیشن کو نکال کر تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ ہے، اس بجٹ سے جنوبی پنجاب میں بھی اسپتال بن رہے ہیں اور لاہور میں بھی۔جی ہاں وہ لاہور جس کو شریف برادران کا تخت سمجھا جاتا تھا اور وہی لاہور جہاں سابقہ حکومت ایک بھی جنرل اسپتال قائم نہ کرسکی، ٹریفک سے متاثرہ لاہوریوں کیلئے سوچ سمجھ کر مناسب فلائی اوورز تک نہ قائم کرسکی، ان کیلئے عثمان بزدار کا بجٹ یہ سوال ضرور اٹھا گیا کہ اگر سارے پیسے لاہور پر لگانے تھے تو کم از کم عوام کی فلاح کو دیکھ کر ہی لگا لیتے اور اپنے گھر کے راستوں پر نئی سڑکیں اور انڈرپاس بنانے کے علاوہ باقی لاہور پر بھی توجہ دے دیتے۔

دوسری جانب جنوبی پنجاب کیلئے 189 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے اور جلد بہاولپور میں بھی سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کیلئے نوکریوں میں 32 فیصد کوٹے کی اصولی منظوری دی جاچکی ہے جبکہ چنیوٹ، حافظ آباد اور چکوال میں نئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال کے ساتھ رحیم یار خان، سرگودھا اور بہاولپور کے ایمرجنسی وارڈز کی اپ گریڈیشن، نئے کارڈیالوجی یونٹس اور ٹرانسپلانٹ سینٹرز کا قیام اور اپ گریڈیشن، ڈی جی خان میں کارڈیالوجی اسپتال کا قیام، نشتر 2 اور شیخ زید 2 کا قیام، انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اور حسیب شہید اسپتال تکمیل کے قریب، مدراینڈ چائلڈ اسپتالوں کے متعدد منصوبوں کے ساتھ 158 اسپتالوں اور صحت مراکز کی اپ گریڈیشن کا کام۔ صحت کے شعبے میں انقلاب کی نشانیاں ہیں۔

شعبہ تعلیم میں 6 نئی یونیورسٹیاں قائم کی جاچکی ہیں اور مزید 9 نئی یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری کے علاوہ 6 اور نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، کل 21 یونیورسٹیاں بنیں گی اور 86 نئے ایسوسی ایٹ کالجز بنائے جارہے ہیں۔ 560 کالجز کو ایسوسی ایٹ کالجز کا درجہ جبکہ 160 کالجز کو گریجویٹ کالجز کے طور پر اپ گریڈ کیا گیا۔ 1533 اسکول اپ گریڈ کئے گئے، اس سال 8 ہزار سے زائد اسکول اپ گریڈ کئے جائیں گے۔ پنجاب کے 27 ہزار اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 500 اسپورٹس گرائونڈ اور 15 تحصیلوں میں اسپورٹس کمپلیکس بھی بنائے جائیں گے۔ 12 نئے اکنامک زونز پر کام کیا جارہا ہے۔ 8 بن چکے ہیں جہاں انڈسٹریلائزیشن کا آغاز ہوچکا ہے اور 4 انڈسٹریل اسٹیٹس کو ایس ای زی بنایا جارہا ہے۔ پنجاب میں سیمنٹ پلانٹس کیلئے 10 این او سیز جاری کئے جاچکے ہیں۔ اور مزید دس این او سیز جلد جاری کردیے جائیں گے۔

ہرضلع میں ترقی کے سفر کے آغاز کیلئے 360 ارب روپے کا ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پیکیج رکھا گیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ 53 ارب روپے کا احساس پروگرام کا آغاز کیا اور 94 پناہ گاہیں قائم کیں۔ 30 ارب کی لاگت سے پنجاب روزگار اسکیم کا آغاز بھی کیا جاچکا ہے۔ 1236 کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر ومرمت مکمل جبکہ فیز 2 میں ایک ہزار کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر و مرمت اس سال دسمبر میں مکمل کرلی جائے گی۔ پنجاب حکومت نے صحت کے ترقیاتی بجٹ میں 185 فیصد، ہائیر ایجوکیشن میں 286 فیصد،ا سکول ایجوکیشن میں 29، زراعت میں 306 فیصد، صنعت میں 307 فیصد، اقلیتوں کے بجٹ میں 4سو فیصد، ایر ی گیشن کے بجٹ میں 76 فیصد، لوکل گورنمنٹ، لائیو اسٹاک اور سی اینڈ ڈبلیو میں 100 سے لیکر تقریبا 2 سو فیصد تک کا اضافہ کیا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ مزدور کی اجرت ان 3 سالوں میں بڑھا کر 20 ہزار روپے تک لائی گئی ہے اور مزدوروں کو گھر الاٹ کئے جارہے ہیں، اسی لئے عثمان بزدار کا یہ کہنا کہ یہ عوامی بجٹ ہے، فلاح و بہبود کا بجٹ ہے، بالکل درست ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین