• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین روز قبل وزیراعظم عمران خان کا قومی اسمبلی میں ہونے والا خطاب، دیر آید پر درست ہی نہیں بڑا درست ثابت ہوا اور ہوگا۔پاکستانی وزیر اعظم کا یہ خطاب اس لحاظ سے بہت تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا کہ اس نے سرد جنگ (91-1945)کے دوران بڑ ی مکاری سے امریکن اینگلو بلاک کے تراشے گئے بین الاقوامی تعلقات کے عالمگیر نظام کے نظری اور عملی ڈھانچے (پیرا ڈائم) میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ عملی شکل میں تو پہلے ہی چیلنج ہو چکا لیکن اب اس کی عملی تعبیر کا سامنے آنا بھی ٹھہر گیا ہے۔ ہمارے خان اعظم نے خالصتاً اپنے ذاتی بیانیے کو پالیسی اور اس کی روشنی میں لی گئی واضح پوزیشن میں ڈھال دیا ہے، عمران خان کا یہ بیانیہ کہ ’’ہمیں افغانستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کا پارٹنر نہیں بننا چاہئے تھا، اور افغان مسئلے کا حل صرف اور صرف سیاسی بذریعہ مذاکرات ہے‘‘۔ گزرے جمہوری عشرے میں اقتدار سےباہر مقبول روایتی ملکی اجتماعی سیاسی قیادت کے برعکس ان کے سیاسی ابلاغ میں مسلسل دہرایا جاتا رہا۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان سے ملحقہ ضلع ٹانک میں جا کر قبائلی علاقے میں اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ دہشت گردی کی آڑ میں بےگناہ شہریوں پر ڈرون حملوں سے ہونے والی اموات پر احتجاج بھی کیا اور روایتی سیاسی مخالفین سے طالبان خان کا لقب پایا۔ وقت آیا تو امریکہ نے ہی طالبان کو امن کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ کوئی غلط تو نہیں دیا تھا، اپنے انخلا کی محفوظ راہ کے لئے یہ لازم تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ انخلا سے پہلے طالبان اور اپنے حامی سیاست دانوں اور افواج کے اشتراک سے کوئی فارمولہ اخذ کرکے قابل قبول حکومت کی تشکیل کو ممکن بناتا لیکن اب تو یہ واضح ہوگیا کہ امریکہ کوتو افغانستان میں امن مطلوب ہی نہیں، وہ اپنے انخلا کے بعد پھرترجیحاً پاکستان یا گردو نواح میں ڈرون حملوں کے لئے اڈوں کی تلاش میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آ کر اپنا بیانیہ عمومی ا نداز میں دہرایا کہ اب پاکستان ’’جنگوں کا نہیں فقط امن کا پارٹنر بنے گا‘‘ لیکن امریکہ نے افغانستان سے انخلا پر افغان حکومت سے بددستور ’’فوجی تعاون‘‘ جاری رکھنے کی جو پوزیشن لی ہے اور اس کے لئے پھر پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لئے جوسفارتی پاپڑ بیلے ہیں، اس پر افغانستان کی دہشت گردی کی یکطرفہ جنگ کے ’’فرنٹ مین‘‘ پارٹنر کے طورپر ادھ موئے پاکستان سے پھر یہ توقع مکمل غیر حقیقت پسندانہ اور پاکستانی قومی مفادات سے انتہا کا صرف نظر تھا۔ اس امریکی ذہنیت اور عادت بد کا پردہ تو وزیر اعظم نے ایسا چاک کیا ہے کہ سرد جنگ میں تشکیل دیئے گئےدم توڑتے عسکری اتحادی پیراڈائم کی دھجیاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب ایوان پر بکھیر دیں۔ وہ پیرا ڈائم جس میں ’’بین الاقوامی تعلقات میں کوئی دشمن اور کوئی دوست نہیں ہوتا‘‘ جس کی عمل داری میں طاقت وروں نے اپنی ہی مرضی اور منشا کے گھڑے ’’قومی مفادات‘‘اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی پیروی میں ہونے والے عالمی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ کہیں اپنے ’’قومی مفادات‘‘ کی خاطر کے لئے آمریت کی سرپرستی اور مکمل دفاع ہواتو کہیں آمر انسانی حقوق کی آڑ میں قتل ہوئے اور پھانسی چڑھے۔قرضے دینے والے مالیاتی ادارے پریشر ٹول کے طور پر تشکیل دیے گئے۔ سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کی پالیسی میکنگ اور فیصلوں پر عملدرآمد کی صلاحیت مکمل ہائی جیک ہوگئی۔ سرد جنگ کے اس ’’فاتح پیرا ڈائم‘‘ کی انتہا آتش فشاں بنے آج کے مظلو م ترین مقبوضہ و محصور کشمیر و فلسطین ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے مذاق اڑاتے خود اسرائیل کی مکمل ناجائز خواہش یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ مقبوضہ کشمیر کا آئینی اسٹیٹس ماورا آئین بلڈوز کرکے وہاں مسلسل ہولناک ریاستی دہشت گردی پر بھی یار مودی کوثالثی یقیناً نہ ہونے والی مکارانہ پیشکش کے علاوہ پیرا ڈائم کے عالمی نظام امن و انصاف میں اور کوئی گنجائش نہ ہے۔ مسئلہ فلسطین پر وائٹ ہائوس میں بٹھا کرصدر ٹرمپ کے جواں سال داماد کی تیار کی گئی ’’ڈیل‘‘اقوام متحد ہ کی دسیوں فیصلوں کے مقابل زیادہ مقدم اور فوری عملدرآمد کی مستحق قرارپائی۔ گویا مکمل متنازعہ ہوتا امریکن اینگلو برینڈ پیرا ڈائم ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘کی قدیم اپروچ کی عملی بحالی پر دم توڑ رہا ہے۔ معاملہ کوئی پاکستان کے اسمبلی فورم تک محدود نہیں، چینی صدر شی پینگ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات کے افتتاح پر جو خطاب کیا اور مغربی دم توڑتے پیرا ڈائم پر جو وار کئے، ادھر روسی صدر پیوٹن بھارت، چین اور پاکستان سے اپنے نئے انداز کے تعلقات کے لئے جو پوزیشن لے چکے ہیں اس میں عالمی سیاست کے منجھے صدر بائیڈن اور امریکی پورپین تھینک ٹینکس کی ایک بڑی حقیقت پسندانہ برین اسٹارمنگ میں جانا ہوگا۔ دم توڑتےپیرا ڈائم میں عشروں کی عملی کاوشوں سے تو دنیا کو امن ملا نا انصاف، الٹا جنگوں اور ہولناک جنگوں کے خطر ےسے دو چار کیا۔

(جاری ہے)

نعمان بن عزیز کی رخصتی

یارو! سردیوں کی شاموں میں فقط اداس رہنے والا ہی نہیں، عاشقوں بقا کو انجام سے خبردار بھی کرنے والا، شعیب بن عزیز ان دنوں چمکتی دوپہروں میں سخت اداس ہے۔ عمر پیری کی پارسائی میں چھوٹے بھائی لیکن بڑا اور صالح سہارا نعمان بن عزیز اللّٰہ کو پیارا ہوگیا۔ چھپے کینسر نے وار کیا اور نعمان کو چھین لیا۔ اللّٰہ والا اس کے بندوں کو ہر دم خلوص و محبت بانٹنے والا نعمان کوئی بھائی سا بھائی تھا، اللّٰہ سب کو ایسا بھائی دے۔ اسے خلوص و خوشی خوب باٹنی آتی تھی، آتی کیا تھی نعمان کا ضمیر و خمیر ہی سراپا یہ تھا۔ایسے میں شعیب اور ہم اداس کیوں نہ ہوں۔ اسلامیہ کالج سے لے کر پنجاب یونیورسٹی کی پڑھائی تک پھر تعلقات عامہ، صحافت اور اس کی درس و تدریس کی دنیا کے 50 سالوں کی عمر عصری و سفری میں شعیب کی دھڑکنوں سے ڈھلتی غزلیں تو بہت سنیں، انہیں تو اب تک جملہ بازی سے بڑے بڑوں کو رلاتےبھی دیکھا، شعیب کو روتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ گوجرانوالہ کےمشہور لاہوری اللّٰہ بخشے علامہ عزیز انصاری کے صاحبزادے کالمسٹ فاروق انصاری گواہ ہیں میں نے نعمان کی جدائی کا غم شیئر کرنے کے لئے نعمان کا نام ہی لیا تھا، شعیب پھوٹ گیا، مجاہد! اس کی بات کرنے کا یارا نہیں۔ فاروق صاحب نے کہا نعمان کی رخصتی پر کچھ شعر ہی سنا دو۔ کہا ’’اس کابھی نہیں، اللّٰہ نعمان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ اور لواحقین کو اس کے حسن سلوک جتنا اور اس جیسا ہی صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

تازہ ترین