• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی وَبا کے بعد تعمیراتی صنعت میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنا

کووِڈ۔19وَبائی مرض کے بعد دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کو اپنانے کے رجحان میں پہلے سے زیادہ تیزی آگئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ، ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نے انسان کے لیے زندگی کے ہرشعبہ میں آسانیاں پیدا کی ہیں، البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ یہ بات تعمیرات کی صنعت میں ہر آئے دن متعارف ہونے والی نئی ٹیکنالوجیز سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ 

تعمیرات کی صنعت میں آجکل روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑے پیمانے پر زیرِ بحث ہے، جس کے استعمال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ 2023ء تک اس مارکیٹ کے 17فی صد کی شرح سے ترقی کرتے ہوئے 16کروڑ 60لاکھ ڈالر تک پہنچ جانے کا تخمینہ ہے۔ اس بات کا انکشاف ’مارکیٹس اینڈ مارکیٹس‘نامی ایک ریسرچ ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔ طلب میں اس قدر اضافے کی چند وجوہات بیان کی گئی ہیں، جن میں پیداوار اور معیار میں بہتری لانا اور دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے باعث عمارتوں کو پائیدار بنانا شامل ہے۔

اس حوالے سے صرف ’مارکیٹس اینڈ مارکیٹس‘ کی رپورٹ ہی ہمارے سامنے نہیں ہے بلکہ یہاں ایک اور رپورٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ مستقبل پر نظر رکھنے والے، این پیئرسن کی 85فی صد پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔ انہوں نے 2045ء کے بارے میں کچھ باتیں کی ہیں کہ25سال بعد دنیا کے بارے میں ہماری کیا توقعات ہو سکتی ہیں۔ پیئرسن نے تعمیراتی ادارے ہیوڈن کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کی ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ تعمیراتی صنعت میں اگلے 25 سال میں کیا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں کے سامنے آنے کے ساتھ شہری عمارتیں زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی کی حامل ہوں گی۔

اس رپورٹ میں کئی اور پیش گوئیاں بھی کی گئی ہیں، جو دلچسپی سے خالی نہیں۔ پیئرسن کے مطابق، عمارت میں رہنے والے اس عمارت سے باتیں کر سکیں گے اور انھیں مختلف کام کرنے کے احکامات بھی جاری کرسکیں گے۔ جیسا کہ گھر کے اندر درجہ حرارت تبدیل کرنے کا حکم دینا وغیرہ۔ مستقبل میں بڑھتی ہوئی طلب اور زمین کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ انتہائی بلند عمارتوں کا رجحان بڑھ جائے گا تاکہ گھر کی قیمتوں کو کم اور درمیانے درجے کی آمدنی رکھنے والے افراد کی دسترس میں لایا جا سکے۔ 

یہ عمارتیں چھوٹے شہر کی مانند کام کرسکیں گی، جس میں رہائش اور کام کے دونوں مقامات ہوں گے۔آپ کو شاید ’’بیک ٹو دی فیوچر2‘‘ کا وہ منظریاد ہو کہ جس میں مارٹی کا مستقبل کا گھر ایک ایسی کھڑکی کا حامل تھا جو کسی بھی منظر کو تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ رپورٹ بھی بتاتی ہے کہ مستقبل میں عمارتوں میں کھڑکیاں نہیں ہوں گی بلکہ ان کی جگہ ورچوئل ریالٹی اسکرینیں نصب ہوں گی۔ شمسی کوٹنگ کا انحصار اس بات پر ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کتنی ترقی کرتی ہے کہ وہ ایسی انتہائی چھوٹی چیز تیار کر سکے جو سورج کی روشنی کو جذب کر کے اسے توانائی میں بدل سکے، لیکن اس کا امکان ہے کہ آپ اسپرے کریں اور وہ جگہ شمسی توانائی حاصل کرنے والی بن جائے۔ 

گھر، دفتر یا عمارت کو گرم اور ٹھنڈا رکھنا ہو یا اس میں روشنی کا انتظام کرنا، ہر کام آپ کے حکم کے مطابق ہوگا یا پھر آپ کے لیے اس بات کو جان کر کہ آپ کے لیے کتنا درجہ حرارت اور کتنی روشنی اس وقت مناسب ہے۔ جاپان کے ایک ٹیکنالوجی ادارے نے ایسا روبوٹک لباس تیار کیا ہے، جو بڑی اور بھاری چیزوں کو اُٹھانا آسان بناتا ہے۔ یہ آئرن مین لباس انسانوں کے لیے بہت سارے کاموں کو آسان بنا سکتا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ مستقبل میں تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والوں میں ایسے روبوٹک لباسوں کا استعمال عام ہوگا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں کئی منصوبوں پر روبوٹ، انسانوں کے شانہ بہ شانہ کام کریں گے بلکہ جن کاموں میں دھماکے یا تباہی کا خطرہ ہو، وہاں یہ کام مکمل طور پر روبوٹس کے ہاتھوں میں ہوں گے۔

کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ تعمیراتی صنعت میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بڑھنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ تعمیراتی صنعت میں ہنرمند افراد کی بتدریج کمی ہوتی چلی جائے گی۔ یہ کمی سب سے زیادہ یورپ میں محسوس کی جائے گی۔ اس وجہ سے، یورپ کی تعمیراتی صنعت میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ وہاں تعمیر و ترقی اور عمارتوں کو منہدم کرنے والے روبوٹس کے لیے بڑی فیکٹریاں قائم ہوں گی، کیوں کہ رہائشی اور غیررہائشی تعمیراتی منصوبے بڑے پیمانے پر شروع کیے جائیں گے۔

روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی صنعت کی پائیدار ترقی اور انھیں انسانوں کا خدمت گار بنانے کے لیے حکومتوں کا اس شعبے پر نظر رکھنا ناگزیر ہوجائے گا اور انھیں نئی قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا بڑھتا استعمال، جہاں تربیت یافتہ ورک فورس کی کمی کو پورا کرے گا، وہاں اس سے ہزاروں اور لاکھوں ایسے افراد بھی بے روزگار ہوجائیں گے، جو کام کرنے کے خواہاں تو ہوں گے، لیکن ان کی نوکری ٹیکنالوجی کھا جائے گی۔ 

امریکا جیسے ملک میں بھی انسانی ورک فورس کو روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کی صنعت سے پیدا ہونے والے خطرات کاسامنا ہے، جہاں کھیتوں سے لے کر تیل نکالنے والی رِگز تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں روبوٹک مزدوروں کو خوش دلی سے قبول کیا جارہا ہے۔ آنے والے چند برس تعمیراتی صنعت میں مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس کے استعمال کے لحاظ سے انتہائی سنسنی خیز ہوسکتے ہیں اور اگر اس صنعت نے ان ٹیکنالوجیز کا مؤثر استعمال کیا تو اس کے انسانی اور اس صنعت کی ترقی پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

تازہ ترین