• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میرا ارادہ ایک قسط وار کالم مولانا مودودی، جاوید غامدی، واصف علی واصف، غلام احمد پرویز، ڈاکٹر اسرار احمد، بابا جی احسان الحق، سرفراز شاہ صاحب اور پروفیسر رفیق اختر پر لکھنے کا تھا، میں نے یہ سیریز ان مشاہیر سے ملاقاتوں اور ان کے اختلافی مکالموں کے حوالے سے لکھنا تھی، مگر جب مجھے ان سب سے ملاقاتیں اور ان میں سے کچھ پر لگائے گئے کفر کے فتوے اور کچھ اختلافی قسم کے بیانات یاد آئے تو میں نے ارادہ ترک کر دیا۔ چنانچہ اب میں کبھی مولانا بغلول قصوری، مولانا چوٹی امرتسری، مولانا بغل بطورا لکھنوی، مولانا زنبیل ذاکری اور اس نوع کے دوسرے علماء جہل افروز پر سیریز لکھوں گا جن کے لاکھوں مریدین ہمارے ہاں موجود ہیں اور یوں ان علماء و ذاکرین کی برکت سے خود میری اپنی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو گا۔

بات یہ ہے کہ ان دنوں اختلافی بات کرنے والا یا اختلافی انداز رکھنے والا، حور و غلمان کی داستانیں بیان نہ کرنے والا، کوئی بھی ہمیں راس نہیں آتا۔ ان کے نظریات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار، جو ’’جہلائے امت‘‘ سے ذرا ہٹ کر ہو، ایسے ہی ہے جیسے آپ شہد اتارنے کے لئے درخت پر چڑھیں اور شہد کی مکھیاں ڈنک مار مار کر آپ کا منہ ’’پڑھولے‘‘ جیسا بنا کر رکھ دیں۔ حالانکہ میرے دوست طارق بلوچ کا کہنا ہے کہ اختلافِ رائے کو دبانا ایسے ہی ہے جیسے مرغیوں کو آپ فطری طور پر بڑا نہ ہونے دیں بلکہ برائلر فارم سے مارکیٹ میں لے آئیں، جن میں وہ غذائیت ہو ہی نہیں سکتی جو ملکی فضا میں گھومنے پھرنے والی مرغیوں سے ملتی ہے۔ یا ایسے ہی ہے جیسے بیل کی آنکھوں پر کھوپا چڑھا دیا جاتا ہے اور وہ ایک ہی دائرے میں چکر لگاتا رہتا ہے، یا جن بچوں کے سروں پر خود پہنایا جاتا ہے اور وہ عقل و خرد سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔

تو دوستو بات یہ ہے کہ میں جن دینی اسکالرز پر ایک سیریز کی صورت میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا تھا، وہ اتفاقی یا اختلافی نوعیت کی نہیں تھی بلکہ ایک جائزہ سا ہوتا اور یہ کام میں قارئین پر چھوڑ دیتا کہ وہ کس بات سے متفق ہیں اور کس سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مگر میں ایک ڈرپوک آدمی ہوں اور یوں بھڑوں کے چھتے پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں رکھتا اور یہ گھٹن صرف مذہبی حوالے سے نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں یہی صورتحال ہے، خصوصاً سیاست پر ڈائریکٹ یعنی لگی لپٹی رکھے بغیر اظہار خیال کرنا ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہو چکا ہے۔ آپ اپوزیشن کے کچھ پہلوئوں پر توصیفی جملے لکھیں تو ایک باڑے میں بند ﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ بہت سی مخلوقات آپ پر پل پڑتی ہیں اور چور چور کے نعرے بلند کرنے لگتی ہیں۔ اگر آپ اپوزیشن کے خلاف لکھیں تو بھی آپ کی خیر نہیں، چنانچہ اس حوالے سے بہترین طریق کار یہ ہے کہ آپ گول مول باتیں کریں اور یوں اس پر ’’شیخ بھی خوش رہے، شیطان بھی بے زار نہ ہو‘‘ والا مصرعہ یاد آ جائے۔ گویا جس طبقے پر قوم کی رہنمائی کی بھاری ذمہ داری ڈالی گئی ہے، وہ قوم کو گومگو کی کیفیت میں مبتلا کر کے اپنا فریضہ انجام دیں۔ کالج میں تدریس کے زمانے میں میرے ایک کولیگ اختلاف کے سخت خلاف تھے، میں کوئی بات کرتا وہ کہتے ’’معاف کیجئے پروفیسر صاحب، مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘ تاہم واضح رہے نہ وہ پروفیسر تھے اور نہ میں، بلکہ دونوں لیکچرار تھے تاہم ایک دوسرے کے مرتبے میں اضافہ ہم دونوں ایک دوسرے کو ’’پروفیسر صاحب‘‘ کہہ کر کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے انہیں کہا ’’پروفیسر صاحب معاشرے میں ذہنی پراگندگی بہت بڑھ گئی ہے‘‘ تلملا کر بولے ’’معاف کرنا پروفیسر صاحب مجھے آپ سے اختلاف ہے‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا ’’پروفیسر صاحب، آپ کو میری کس بات سے اختلاف ہے‘‘ بولے ‘‘پروفیسر صاحب آپ نے کہا ہے کہ معاشرے میں ذہنی پراگندگی بہت بڑھ گئی ہے، جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ پراگندگی بہت زیادہ نہیں بڑھی، بس پراگندگی تھوڑی بہت موجود ہے۔‘‘

بہرحال ہماری قوم اس طرح کے اختلافات پر کئی لوگوں کو گردن زدنی قرار دے چکی ہے، خصوصاً مذہب کی خوفناک تشریح نے پاکستانی قوم کو ایک اندھیرے غار میں دھکیل دیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بدترین فعل اور ایک دوسرے بدترین فعل میں سے کسی ایک کو اپنا کر اس کا بھونڈا جواز پیش کر دیتے ہیں۔ ایک نوجوان روتا ہوا اپنے ایک دوست کے پاس گیا اور کہا ’’فلاں شخص نے میرے ساتھ بدفعلی کی ہے‘‘ دوست نے کہا ’’تو تم نے یہ کمر کے ساتھ پستول کس لئے لٹکائی ہوئی ہے‘‘ وہ نوجوان بولا ’’یہ پستول تو اس گستاخ کے لئے ہے جو میرے مرشد کے خلاف بدزبانی کرے‘‘ بس اب ہمارے خیالات و افکار کی اونچ نیچ کسی حوالے سے ہے۔ اختلاف کا گلا گھونٹنے والوں کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ سارے شہر کی ساری دیواروں پر یہ عبارت لکھوا دیں کہ ’’دیکھو گدھا اختلاف کر رہا ہے!‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین