• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد سات کروڑ سے زائد ہے۔ صرف پاکستان میں ساٹھ لاکھ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ افغانستان دنیا بھر کی افیون کا 75فیصد پیدا کرتا ہے اور ضیاء دور میں صرف افیون کی فروخت سے دو ارب ڈالر سالانہ کماتا رہا ہے۔ دنیا میں برما سب سے زیادہ ہیروئن پیدا کرنے والا ملک ہے۔ راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں 72فیصد افغان مہاجرین ہیروئن کا کاروبار کرتے ہیں۔

سہراب گوٹھ کراچی میں ہیروئن مونگ پھلی اور پاپڑوں کی طرح گلیوں میں بکتی ہے۔اور آخر میں یہ کہ1983میں پاکستان بھر میں ہیروئن کے استعمال کے صرف چار کیس رجسٹر کئے گئے تھے۔ یہ وہ چند دل خراش حقائق ہیں جو اقوامِ متحدہ کے ’’ڈرگ کنٹرول پروگرام‘‘ اور انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹرٹیجی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ امریکہ نے 26جون 2021کو دنیا بھر میں منائے جانے والے ’’انسدادِ منشیات کے دن‘‘ پر شائع کئے ہیں۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیروئن کی وبا کا آغاز 1982میں ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والی اس جان لیوا بیماری اور بیماروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نشہ کے عادی افراد کی تعداد پر کنٹرول پانا بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے اور یہ ایک ایسے ملک کی داستان ہے جسے ہم مملکتِ خداداد کہتے ہیں جو اپنے آئین کے حوالے سے ایک مذہبی ریاست ہے۔ اسی ریاست میں 1980سے پہلے ہیروئن کا ایک بھی عادی موجود نہ تھا اور آج ان کی تعداد 60لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ہیروئن کا استعمال ایک سماجی مسئلہ بن چکا ہے بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ اب ایک بین الاقوامی مسئلے سے زیادہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہیروئن اور دوسری نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت موت کا ایک کاروبار ہے اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس مکروہ بیوپار میں ملوث ہیںاور ان کی تعداد ہے کہ روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پوست کی کاشت پہلے کی نسبت کم ہو گئی ہے۔ 2020میں منشیات کاشت کرنے کا رقبہ 14228ایکڑ تھا جواب سکڑ کر کم ہوگیا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے تحت آزاد قبائلی علاقوں میں جہاں ہیروئن بنانے کی 200سے زائد لیبارٹریاں کام کر رہی تھیں اب چند ایک خفیہ لیبارٹریوں کے علاوہ حکومت نے سب ختم کر دی ہیں۔ پوست کی کاشت جو 1200میٹرک ٹن تک پہنچی ہوئی تھی کم ہو کر 160میٹرک ٹن پر آگئی ہے۔ اس وقت پاکستان کا شمار منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے ملکوں کی فہرست سے نکل کر منشیات کے استعمال سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست آگیا ہے۔ اس مسئلے کا سب سے لرزہ خیز پہلو یہ ہے کہ یہ وبا زیادہ تر نوعمر افراد کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اس سلسلے میں کی گئی مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ 18سے 26برس کی عمر کے افراد ہیروئن کے عادی کل افراد کا 62فیصد ہیں اور اب تو نہ صرف معاشرے کا عام طبقہ بلکہ عورتیں، کامیاب تاجر پیشہ افراد، محنت کش، طلبا اور حتیٰ کہ سرکاری ملازمین بھی اس مہلک نشے سے محفوظ نہیں۔ ایک سروے کے مطابق صرف کراچی میں ہیروئن کے عادی افراد میں16فیصد عورتیں شامل ہیں۔ جن میں اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیوں کے علاوہ ملازمت پیشہ عورتیں بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ کیا ہے؟ اور کسی فرد کو ہیروئن کا عادی ہونے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ ایک خبر کے مطابق پاکستان میں بیروزگار افراد کی تعداد 30لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق، نوجوانوں میں بیروزگاری بھی منشیات کے استعمال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بڑی خطرناک وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اب سگریٹ کے ذریعہ ہیروئن استعمال کرنے کے بجائے ٹیکے کا استعمال بڑھ گیا ہے، اس سے جہاں ہیروئن کے استعمال میں آسانی ہوتی ہے وہیں خطرات پہلے سے کہیں بڑھ گئے ہیں کیونکہ استعمال شدہ سوئیاں اور سرنج اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ کر رہی ہیں اور آئندہ برسوں میں ہیروئن کے باعث ہونے والی اموات میں ناقابلِ یقین حد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ مستقبل میں اس لعنت کے مزید پھیلنے کی توقع ہے کہ نہ صرف منشیات زدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے بلکہ موت کے بہت سے اور سوداگربھی اس نفع بخش کاروبار میں شامل ہونے کیلئے کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ دوسری طرف ہیروئن پر کنٹرول میں ڈھیل سے وبائی صورت اختیار کر جانے کا خطرہ ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کا یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ حکومت کی بھر پور کوششوں کے باوجود پاکستان میں اس کا استعمال مستقبل میں بھی جاری رہے گا کہ حکومت کی کوششوں کا مرکز صرف ہیروئن کی اسمگلنگ اور ترسیل کو روکنا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین