• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء کے الیکشن میں حیرت انگیز تبدیلیاں ظہور پذیر ہوئیں۔ خصوصاً ماضی کے پی پی پی کے پانچ سالہ اقتدار کی بڑی اتحادی جماعتوں کو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کسی نہ کسی طرح اندر باہر رہ کر اپنے آپ کو بچا گئی۔ مسلم لیگ ق اور عوامی نیشنل پارٹی دونوں صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالکل باہر ہو گئیں ۔ مسلم لیگ (ق) پنجاب میں بھی ختم ہو گئی البتہ متحدہ قومی موومنٹ کراچی اور حیدرآباد میں بمشکل اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہی۔ اس طرح پاکستان پیپلزپارٹی بھی خیبر پختونخوا ،بلوچستان اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے بری طرح الیکشن ہار گئی اور سمٹ کر صرف صوبہ سندھ کے اندرونی علاقوں میں کسی نہ کسی طرح اپنی سیٹیں بچا گئی اور مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف سے لڑ بھڑ کر اپنی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ۔ البتہ پورے ملک میں عمران خان کی تحریک انصاف نے سیاسی میدان میں اگرچہ سیٹیں حاصل نہیں کیں مگر 60سے زائد حلقوں میں دوسرے نمبر پر آکر اور تیسرے نمبر پر ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا اب مسلم لیگ (ن) ایک دفعہ پھر اکثریت حاصل کرنے کے باوجودعوام کی توقعات پر پورا اُترنے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔ وہی دہشت گردی ، قتل ، اغواء ، مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ، گیس اور بجلی کی آنکھ مچولی کے ساتھ ساتھ پیٹرول ، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف ایک ماہ کے قلیل عرصے میں 2بار ہو چکا ہے ۔ حکومت اس اضافے کا دفاع کر رہی ہے خصوصاً جی ایس ٹی میں اضافہ چیف جسٹس کی وارننگ کے باوجود پچھلی تاریخوں میں نافذ العمل کر کے پی پی پی والوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور آئی ایم ایف کے قرضے لوٹانے کا اعلان کرنے والے آج آئی ایم ایف کی شرائط ہی قبول کر رہے ہیں ۔ اوپر سے رمضان المبارک کی آمد ہے مہنگائی کا مصنوعی سمندر ہمارے خود غرض تاجروں ، سبزی و پھل فروشوں ، گوشت ، دودھ ، روزمرہ کی اشیاء کے دکانداروں کے ہاتھوں بے رحمی کا شکار ہو کر عوام کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا اور مہنگائی تمام سال اضافی پریشانی کا باعث بنے گی۔ حکمران ماضی سے اگر سبق نہیں سیکھ سکتے تو خطے کی موجودہ سیاسی صورتحال کو سمجھیں ۔ مصر میں33سال بعد حسنی مبارک جیسے بے لگام حکمران کو برداشت کرنے والی قوم نے 6ماہ بعد عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والی جمہوری پارٹی اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ صدر مرسی 48گھنٹے بھی عوام کے دباؤ کو برداشت نہ کر سکے ۔ فوج نے ان کو معزول کر کے اقتدار سے محروم کر دیا جو عوام ان کو کامیاب کروا کر اقتدار کی کرسی پر جس شان و شوکت سے لائے تھے اسی تحریر اسکوائر پر مصر کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے کے بعد ان کو اُتار کر جشن منا رہے تھے ۔ وجہ وہی ماضی کے ناسور مہنگائی ، بے روزگاری اور سیاسی دھینگا مشتی تھی ۔ جس کو خود صدر مرسی کے لائے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالفتح خلیل جو نہایت مذہبی رجحان رکھنے والے اور خاموش طبع جنرل نے خاموشی سے اقتدار کی بساط لپیٹ کر ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ۔ موجودہ مصری انقلاب لانے والی پارٹی کا نام بھی ”بغاوت پارٹی “ہے ۔ جو صرف تین ہفتوں میں کامیابی کی منزل تک پہنچ گئی اور پہلی اسلامی جمہوری سیاسی پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ کر ڈالا ۔ آج تک پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں مکمل طور پر عوام کو مایوس کر چکی ہیں ۔ کوئی بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ عدلیہ بھی5سال کے عرصے میں سب کچھ کر کے دیکھ چکی ہے۔کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔ سیاسی دنگل میں ہر کوئی لوٹ کھسوٹ میں لگا ہوا ہے ۔ کل کے حزب ِ اقتدار آج حزبِ اختلاف کا حقیقی کردار ادا کرنے میں ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں ۔ گویا پھر سے فرینڈلی اپوزیشن 5سالہ سیاسی ٹیسٹ میچ شروع کر چکا ہے۔
دیکھتے ہیں یہ ٹیسٹ میچ سیاست کے میدان میں کب ختم ہوتاہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں کے دکھی عوام کو چھوڑ کر چین کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں جبکہ ان کا سعودی عرب کا دورہ ان کا منتظر ہے اور قومی سلامتی کونسل خفیہ ایجنسیاں خاموش ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت میں بیوروکریسی میں زورشور سے اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے ۔ ہر وزیر اپنی اپنی پسند کا سیکریٹری لگوانے میں مصروف ہے ۔ ماضی کی طرح آہستہ آہستہ وزیروں ،مشیروں ، وزیر ِ مملکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جبکہ جے یو آئی (ف)کے وزیروں کو ویٹنگ روم میں بٹھا دیا گیا ہے ۔ اللہ اللہ تے خیر صلہ ۔ فی الحال تو پورے ملک میں ایک دن روزہ رکھنے اور ایک ہی دن عید منانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ،کیا یہی سیاسی ایجنڈا تھا ؟
تازہ ترین