• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ بیس برس تک افغانستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے کے بعد گیارہ ستمبر تک اپنی تمام فوجیں افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر چکا ہے جس سے بڑےبڑے دارالحکومتوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے اور اِس خدشے کا اظہار کیا جانے لگا ہےکہ افغان حکومت اب چند ہفتوں کی مہمان ہے اور اِنخلا سے پہلے اگر شراکت داروں میں اقتدار میں شرکت کا کوئی معاہدہ طے نہ پایا، تو بدترین خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ افغانستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی موڑ 1988 میں آیا تھا جب دس سالہ خونریز جنگ کے بعد سوویت یونین بدترین شکست سے دوچار ہو کر جلد سے جلد افغانستان سے نکل جانا چاہتا تھا۔ اِس دوران جنرل ضیاالحق پاکستان کی زمامِ کار سنبھالےہوئے تھے۔ وہ اَفغانستان میں سوویت یونین کی طرف سے فوجی یلغار کا خطرہ بہت پہلے بھانپ گئے تھے۔

اُنہوں نے جولائی 1979 میں امریکی صدر جمی کارٹر کو خط کے ذریعے افغانستان میں سوویت یونین کی فوجوں کی متوقع یلغار کی طرف توجہ دلائی، مگر اُن کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ جب دسمبر 1979 میں افغانستان پہ روس کا حملہ ہوا، تو چند ماہ بعد امریکی صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر برزنسکی (Zbigniew Brzezinski) جنرل ضیاء الحق سے ملنے آئے۔ وہ بتا رہے تھے کہ روس کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جس ملک میں ایک بار دَاخل ہوا، اُس پر قابض رہا۔ اِس لئے ہماری یہ پوری کوشش ہو گی کہ وہ ڈیورنڈ لائن عبور کر کے پاکستان میں داخل نہ ہو سکے۔ جنرل صاحب نے پُراعتماد لہجے میں کہا کہ ہم افغان مجاہدین کی ہر طرح سے مدد کریں گے، عالمی سطح پر سفارتکاری کو بروئےکار لائیں گے اور آپ کے عملی تعاون سے سوویت یونین کو دریائےآمو سے پرے دھکیل دیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے پوری اُمتِ مسلمہ میں افغان کاز کیلئے روح پھونکی، اقوامِ متحدہ کے 125کے لگ بھگ ملکوں میں افغانستان کی جنگِ مزاحمت کے لئے زبردست ہمنوائی پیدا کی، امریکہ سے اسٹنگر میزائل حاصل کیے اور تاریخ میں پہلی بار سوویت یونین کو افغانستان سے دستبردار ہونا پڑا، لیکن فوجوں کے باقاعدہ انخلا سے پہلے اُنہوں نے روسی، امریکی اور اپنی سیاسی قیادت کو یہ سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت قائم نہ کی گئی، تو افغانستان میں طویل عرصے تک بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوتا رہے گا جس کے پاکستان پر انتہائی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے۔ اُس وقت امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور بن جانے کا اعزاز جلد سے جلد حاصل کر لینا چاہتا تھا، اِس لئے جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں راستے سے ہٹا دیے گئے۔ وہ شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر بھی فائز ہوئے اور سوویت یونین کا طاقت کے ذریعے خلیج کے دہانے پہ بیٹھ جانے کا خواب بھی چکنا چُور کر گئے۔ اُنہوں نے مستقل طور پہ پاکستان کو ایک ہولناک بلا سے محفوظ کر لیا تھا۔

آج افغانستان ایک بار پھر دوراہے پر کھڑا ہے اور امریکہ وہاں سے نکلنے کا اعلان کر چکا ہے۔ آج طالبان افغانستان کے ستر فی صد حصّے پر قابض ہیں اور امریکہ کے سہارے کھڑی افغان فوج طالبان سے لڑنے کے بجائے ہتھیاروں سمیت اُن میں شامل ہو رہی ہے۔ ہزاروں فوجی پناہ لینے تاجکستان چلے گئے ہیں۔ کابل سے فقط چالیس میل کے فاصلے پر واقع بگرایم ایئر بیس جو امریکی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا تھا، اُسے چند روز پہلے رات کی تاریکی میں خالی کر کے امریکی اِس طرح چلے گئے کہ افغان فورس کے کمانڈر کو بھی اطلاع نہیں دی۔ اگر افغان طالبان اُس پر قابض ہو جاتے ہیں، تو اُن کیلئے کابل کو مسخر کر لینا بہت آسان ہو جائے گا۔ کابل میں حکومت کی ٹانگیں تو پہلے ہی بری طرح کانپ رہی ہیں۔

پچھلے دنوں جناب اعجازالحق مجھ سے ملنے آئے۔ اُنہوں نے بتایا کہ میرے چچا کی تعزیت کے لئے افغان طالبان کا ایک ہائی لیول وفد آیا تھا۔ اُس کے ساتھ چار پانچ گھنٹے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ اندازہ ہوا کہ یہ لوگ 1996 کے مقابلے میں بڑے زیرک، متحمل مزاج اور نرم گفتار ہیں۔ افغان طالبان میں اب سراج حقانی کے صاحبزادے بہت فعال ہیں اور پڑھےلکھے نوجوان فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہیں۔ وفد کے ارکان نے بتایا کہ ہم نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم اِس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور خواتین کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کیے بغیر کوئی حکومت مستحکم نہیں ہو سکتی۔ ہم نے تاجک، اُزبک اور ہزارہ قبائل سے اچھے تعلقات قائم کر لئے ہیں اور اُنہیں اقتدار میں شریک رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارت نے ملابرادر سے رابطے کرنے کی باربار کوشش کی، مگر ہم نے دوٹوک جواب دے دیا کہ ہم تمہارے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتے، کیونکہ تمہارا عمل افغان طالبان سے دشمنی کا عکاس رہا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا داعش، القاعدہ اور تحریکِ طالبان پاکستان سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہم پاکستان کے مفادات کے خلاف قدم اٹھانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ اِس نے ہماری حکومت سب سے پہلے تسلیم کی تھی اور جنرل ضیا الحق کی راہنمائی میں مجاہدین نے سوویت یونین کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ وہ یہ حقیقت بھی بیان کر رہے تھے کہ شمالی افغانستان میں وہاں کے مقامی لوگ ہی شمالی اتحاد کی طاقت پہ کاری ضرب لگا رہے ہیں، تاہم اُنہیں یہ تشویش لاحق تھی کہ اگر ترکی کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، تو ہمیں اُس کی فوجوں سے لڑنا پڑے گا۔

اعجازالحق کی باتوں سے بہت حوصلہ ہوا اور افغانستان میں قیامِ امن کی امید بَر آنے کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغان طالبان کے بارے میں غیرمحتاط بیانات دینے کے بجائے اُن کے متوازن رویوں کی حوصلہ افزائی کریں، مصالحت کے عمل کو فروغ دیں اور حکومت اور اَپوزیشن یکسوئی سے اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ اُنہیں ایک ایسے عالمی بندوبست کے لئے ہر آن کوشاں رہنا چاہئے جس میں افغانستان کے اندر اختیارات کی منصفانہ تقسیم پر بھی عمل درآمد ہو سکے اور اُس کی ضمانت دینے والی عالمی اور علاقائی طاقتیں بھی موجود ہوں۔ یہ کام اعلیٰ درجے کی بالغ نظری،سیاسی پختگی اور سفارت کاری کا تقاضا کرتا ہے۔

تازہ ترین